Sunday, March 30, 2008

مٹی کاسورج

کوثروتسنیم کی لہریں اگرانسانی خدوخال میں ڈھل جائیں توسیدخورشیدمحی الدین گیلانی ؒ کاسراپابنے گا ۔آپؒبرصغیرکی صوفیانہ تہذیب کا کامل نمونہ تھے۔اللہ تعالیٰ نے جب تقدیربانٹی تھی توان کے خانے میں ولایت درولایت لکھ دیاتھا۔ہمہ صفت موصوف تھے ۔ہرلحاظ سے عظیم تھے۔انسان بھی ،استادبھی اورعالم وصوفی بھی۔ہرکہ ومہ کے کام آتے تھے۔سچ مچ عوام کے ولی تھے۔صرف استادہی نہیں معمارِانسانیت تھے۔زندگی بنانے اوراجالنے کافن جانتے تھے۔شیخوپورہ شہرکی فکری اورروحانی تربیت میںآپ کی تعلیم کاگہرااثررہاہے۔ سرزمین ِشیخوپورہ نے شایدہی اتناپڑھالکھااورباکمال انسان کبھی دیکھاہوجیسے آپ تھے۔الغرض آپ ان انسانوں میں سے ایک تھے جن کے علمی وجودکوہردورمیں ضرورت کے طورپرتسلیم کیا گیا ہے۔یہاںتک کہ ان کے دنیائے فانی سے رخصت ہوجانے کے برسوںبعدبھی اہل ِدل ان کی ضرورت محسوس کرتے رہتے ہیں۔اب شایدان اوصاف کے لوگ پیدانہیں ہوتے ۔وہ لوگ جوذاتیات کی سرحدسے نکل کردوسرے انسانوںکی خیرخواہی اورفلاح کیلئے زندگی گزارتے ہیں۔بالکل سیدخورشیدمحی الدین گیلانی ؒکی طرح! آپ کی خوبیاں حروف ِتہجی سے زیادہ ہیں۔آپ نئے لباس میں پرانے انسان تھے ۔ زبان مشرقی لیکن دل عربی تھا۔آپ ؒکابچپن ایسے دریاکی طرح گزراجوخاموشی سے بہتاہو۔جوانی جیسے کوئی ابرپارہ گزرگیاہو۔حصول ِتعلیم کاذوق فطرت کاجزوتھا۔علم کے سمندرمیں ایسے اترے کہ خودچشمہ فیض بن گئے ۔اب یہ معلوم نہیںکہ یہ فیضان ِنظرتھایاکہ مکتب کی کرامت تھی بہرحال آپ نے یہ ثابت کردیاکہ آپ مخدوم العالم حضرت سیدعلی احمدشاہ گیلانی ؒکے فرزند ِدل بندہی نہیںبلکہ خاندان ِکیتھلی ؒ کی عظیم صوفیانہ روایات کے حقیقی وارث بھی ہیں۔مخدوم العالم حضرت سیدعلی احمدشاہ گیلانی ؒسے کون واقف نہیں۔مسلمانوںمیںبیسویں صدی میںجوچندعلمی وجودپیداہوئے، مخدوم العالم حضرت میاںسیدعلی احمدشاہ گیلانی قادریؒان میں سے ایک تھے۔برصغیرپاک وہندکے قریب قریب تمام آستانوں اوردرگاہوںمیںآپ کانام ادب سے لیاجاتاہے۔مخدوم العالم ؒکے وصال کے بعد اعزہ زوردیتے رہے کہ سجادہ نشین ہوجائیں لیکن طبیعت نہ لگی۔مشیت ایزدی جانتے تھے۔ڈیرہ غازی خان سے اٹھے اورنسبت ِرسولؐ کاعظیم سرمایہ لئے شیخوپورہ پہنچے ۔غالب کے الفاظ میںع۔چل کے اب ایسی جگہ رہئے جہاں کوئی نہ ہو والی بات تھی۔3 ایک ایسے شہرمیں جہاں کوئی جانتانہ تھایہ خورشید ِمعرفت رفتہ رفتہ ابھرتاگیا،یہاں تک کہ نصف النہارکوپہنچ گیا۔اس مٹی کے سورج نے اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے لاتعدادانسانوںکوایمان اورعقیدے کی روشنی میںلاکھڑاکیا۔ آپ نے جن کوایمان،اعتقاد،اعتماداوریقین کی کشتی میںبٹھاکرزندگی کے سفرپربھیجاان کاساحل ِمراد دنیوی اوراخروی فلاح کے سوااورکیاہوسکتاہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام جیدصوفیاء کی طرح آپ ؒکاطریق بھی طریقت بالواسطہ ء شریعت ہے اوریہی تعلیم ِنبوی ؐہے۔شریعت جسم اورماحول کی پاکیزگی ہے جس کے بغیرقلب وروح کاتزکیہ نہیںہوسکتا۔آپ ؒکادرس ہے کہ شریعت ِمحمدی ؐکی پیروی اورحضرت ِاقدسؐکی محبت ہی رضائے الٰہی کی کلیدہے۔امام اہل ِسنت الشاہ احمدرضاخان صاحب فاضل بریلویؒکی شہرہ آفاق نعت مبارک کامطلع ہے۔خداکی رضاچاہتے ہیںدوعالم ۔خداچاہتاہے رضائے محمدؐE آپ کے آستانے کادروازہ شاعروں ،ادیبوں ،مریدوں اورسیاسیوں کیلئے ہروقت کھلارہتا۔جب تک انسان آپ سے ملتانہ تھاذہنی انتشارسے نجات نہیں پاتاتھا۔آپ سے مل کرعقیدے اورعقیدت کاایک اٹوٹ ساکنکشن قائم ہوجاتاتھا۔دل کے اندرکہیںازلی محبوب کاتونبہ بجنے لگتاتھا۔روح کوآنندمل جاتاتھا۔آپ کی مجلسِ علمی میںسخن فہمی ،عقل ودانش اورسلوک ومعرفت کے چراغ جلتے تھے۔آپ کی طبیعت شاعرانہ تھی لیکن شعرکہنے سے احترازکیا۔ قلم کاربھی تھے ۔صحیح معنوں میں دانش ورتھے۔درست پڑھا،درست لکھا،ہمیشہ درست سوچااوردرست کیا۔علم ودانش کی فراوانی کے باوجودآپ نے کبھی اپنے اورمخلوق ِخداکے درمیان اجنبیت کے پردے حائل نہیںہونے دئیے۔شاہ نافذالامرتھے،الامرمنکم بنائے گئے تھے،لیکن کبھی نہ توکسی کومرعوب کرنے کی کوشش کی نہ کبھی کسی سے مرعوب ہوئے۔ہاںہرانسان کی عزت کرتے تھے۔سب کوقابل ِعزت سمجھتے تھے۔ سرسے پائوں تک متوازن تھے۔دل بھی متوازن ،دماغ بھی متوازن ۔آپ ؒعلم وعمل کامجمع البحرین تھے۔ قول وفعل میںایسی ہم آہنگی تھی جیسی خوشبواورہوامیںہوتی ہے۔کچھ دیرآپ کے پاس بیٹھنے سے احساس ہوتاتھاکہ جیسے آپ کے بشرے پرلکھاہے کہ زندگی ایک قرض ہے ۔اسے نیک اعمال کی پونجی دے کرچکاناہے۔قدم قدم اللہ کی طلب اوررضا کیلئے ہوناچاہئے۔ہرسودہرزیاںمیںخداتعالیٰ کی طرف رجوع رکھناوراسی کے فضل کوپکارے جاناہے۔زبان وادب آپ کیلئے جیب کی رقم کی طرح سے تھے۔الفاظ ہمیشہ آبشارکی طرح صاف ،دھلے دھلائے اورترشے ترشائے بولتے تھے۔ اونچی آوازسے بات کرنے کا آپ کے نزدیک تصورہی نہ تھا۔آپ کی گفتگومیں خاموشی اورچپ چاپ میں بات چیت کارنگ غالب تھا۔طبیعت باغ وبہارپائی تھی لیکن مزاج میں بقول شورش کاشمیری پچھلے پہرکے آنسوئوں کی آنچ تھی۔چہرے مہرے سے بغدادکے صوفی معلوم ہوتے تھے۔شایدیہ جناب غوث الثقلین شیخ عبدالقادرجیلانی ؓ سے والہانہ عشق کااثرتھا۔ بر ِصغیرکے عظیم صوفی دانشوراشفاق احمدؒسائیںنوروالے صاحب ؒکاایک ارشادبیان فرماتے تھے کہ جس ماضی کاحال شاہدنہ ہو،وہ ماضی جھوٹاہے۔یعنی اگرماضی میںایسے ایسے بزرگ ہوتے رہے ہیں جن کے تذکرے کتابوںمیںملتے ہیں،توان کواب بھی موجودہونا چاہئے ۔ صاحب ِنسبت اب بھی ضرورموجودہیں۔انہیںجاننے کیلئے دیکھنے والی آنکھ کی شرط ضروری ہے۔حضرت مخدوم سیدخورشیدمحی الدین گیلانیؒ کاوجودِمسعوداسلامی تصوف کی اسی تاریخ کاخلاصہ تھا۔آپؒ سے ملنے والے آپ میںپہلے وقتوں کے اولیاء کودیکھتے تھے ۔ آپ ؒکاچہرہ دیکھ کرمعرفت اوراہل ِمعرفت کی سچائی کوتسلیم کرنے کیلئے کسی اوردلیل کی ضرورت نہیںرہتی تھی۔ماضی قریب کے مشہورصوفی بزرگ صوفی برکت علی لدھیانویؒ آپ کی شخصیت کوبہت سراہتے تھے۔ علم سے آپ کاوہی تعلق تھاجوشاعری میں ردیف اورقافیے کاہوتاہے۔استاداس پائے کے تھے کہ جس پائے کے حضرت علامہ اقبال ؒ شاعراور الشاہ احمدرضاخان صاحب فاضل بریلویؒعالم تھے۔آپ ؒنے وردوظیفے نہیںبتائے بلکہ لوگوںکواپنے اخلاق سنوارنے اوربہترانسان بنانے کی تعلیم دی۔آپ نے علم کوجمہورکی امانت سمجھااوردرحقیقت آپ کی متاع آپ کاعلم ہے جسے آپ نے محبت کی طرح بانٹا۔رہی بات آپ کے عارفانہ مقام کی تواس معاملے میںمیراقلم اورزبان عاجزہیں۔کہاںوہ مہر ِمنیراورکہاںایک ذرہ ء حقیر۔قطرے کی کیابساط سمندرکے سامنے ۔ تاریخ ِعالم ایسے انسانوں کوہی یادرکھتی ہے جودوسروں کی زندگیاں اورمقدربدلنے کواپنانصب العین سمجھتے ہیں۔جواپنی ایمانی فراست کی سرچ لائٹ لے کرمخلوق ِخداکی راہ نمائی کرتے ہیں۔ان کے اخلاق وکردارکی اصلاح کرتے ہیں۔جنہیںآسانیاںتقسیم کرنے کاشرف عطاہوتاہے۔آپ ایسے ہی تھے۔ایساکہنابجاہے کہ جدیدصوفی ازم کی تمام ترخوبروئی کانام ہی سیدخورشیدمحی الدین گیلانی ؒ ہے۔آپ لباس ِانسانی میںمٹی کاایک سورج تھے جس کی تابانیاںجب بھی جاری تھیں،اب بھی جاری ہیں۔اس کے اجالے ہمارے اندرہیں،ہمارے دلوںمیں،ہمارے باطن میںاورروشنی کایہ سلسلہ رکنے والانہیں،بہت طویل ہوگا۔بہت پھیلے گا۔اس دورسے نکلے گااورنسل درنسل سفرکرے گا۔ آپ کاعرس مبارک ہرسال 3اپریل کودربارِعالیہ قادریہ شیخوپورہ میںآپ ؒکے فرزند ِارجمندصاحبزادہ سیدخالدحمادگیلانی کی سرپرستی میںمنعقدہوتاہے۔

Thursday, March 27, 2008

بیس روپے کے نئے کرنسی نوٹ کااجراء

اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے بیس روپے کے نئے نوٹ کااجراء کردیاہے۔اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے مطابق ایساسیکیوریٹی کے پیش ِنظرکیاگیاہے۔بیس روپے کے نوٹ کے حوالے سے ایک شکایت عام تھی کہ اس کی بناوٹ پانچ ہزارکے نوٹ سے ملتی ہے ۔ویسے شایدشکایت کرنے والوں نے یہ کہاوت نہیں سنی ہوگی کہ جنہاں دے گھروچ دانے انہاں دے کملے وی سیانے۔ایک عام آدمی کی تنخواہ کواگرپانچ ہزارکے ترازومیں تولاجائے تواندازہ کیجئے کہ اس کے حصے میں کتنے نوٹ آئیں گے۔اب جس کی مہینے بھرکی مشقت کے عوض اسے ایک یادونوٹ ملیں گے تووہ کیاگنڈیریاں خریدنے کیلئے جیب میں پانچ ہزارکانوٹ لے کرجائے گااوراگرجائے گاتوکیااتناہی مخبوط الحواس ہوگاکہ وہ اسے پانچ روپے دینے کی بجائے پانچ سوتھمادے۔بہرحال ثبات ایک تغیرکوہے زمانے میں کے مصداق اگراسٹیٹ بنک آف پاکستان جنوں کانام خردرکھنے اورخردکوجنوں کہنے پرمصرہے توکوئی بات نہیں۔پیچھے امام کے اللہ اکبر

Monday, March 10, 2008

پنجاب میںاسلاف کی آخری صدا


علم اورعمل دونوں صفات یکجاہوںتوسیدولی محمدشاہ صاحب ؒکی شخصیت وجودمیں آتی ہے۔آپ بیسویں صدی کے ان گنے چنے صوفیاء میں سے ہیں جن کے سبب فقرواستغناکابوریہ قائم ہے۔قرون اولی کے جن مسلمانوںکاتاریخ میںذکرملتاہے آپ ان کی ہوبہوتصویرتھے۔پیغمبری وقت کامحاورہ آپ کے قدوقامت،اخلاق حسنہ،کمالات اوردینی وجاہت پرصادق آتاہے۔ڈیرہ غازی خان،ملتان ،بہاولنگراورقبولہ شریف کی عوام کے دلوںپرآپ کی عظمت کے انمٹ نقش کھدے ہوئے ہیں۔عربی کی مشہورکہاوت ہے کہ حسن وہ ہوتاہے جس کاسوکنوں کوبھی اعتراف ہو۔علمائے وقت ہوں یاصوفیائے زمانہ ،سبھی آپ کی عالمانہ اورصوفیانہ شان کی گواہی دیتے تھے۔یوںکہئے کہ پنجاب بلکہ پاکستان میںآپ اسلاف کی آخری صداتھے۔اب شایدان اوصاف کے لوگ پیدانہیں ہوتے تبھی توبالعموم پنجاب اوربالخصوص ڈیرہ غازی خان،ملتان ،بہاولنگراورقبولہ شریف کی نئی پودجب اس مردخداکے بارے میں جب سنتی یاپڑھتی ہے توحیران ہوتی ہے کہ ایسی اجلی سیرت کے انسان بھی ہواکرتے تھے! آپ میں سے بیشترافرادایسے ہوں گے جویہ نام پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہوں ہوں گے لیکن اس کے باوجودآپ کویہ نام اجنبی نہیں لگے گا۔سید۔ولی۔ محمد۔شاہ ۔گیلانی۔ یہ نام پانچ اسماء کامجموعہ ہے اوران پانچوں اسماء کامرکزہے نام ِمحمدصلی اللہ علیہ وسلم۔باقی سب اسی اسم ِمبارک کی کرنیں ہیں۔اسی ایک نورکے دھارے ہیں۔آپ کے نام میں شریعت بھی ہے اورطریقت بھی۔حسن بھی ہے اورثواب بھی۔اقبال نے اپنی شاعری میںایک مسلمان کی جوتصویرپیش کی ہے،آپ ؒاس تخیل کاہی ایک حصہ معلوم ہوتے ہیں۔بوئے اسداللہی ،سوزوسازِرومی اورپیچ وتاب ِرازی ،عجم کاحسن ِطبیعت اورعرب کاسوزِدروں۔یہ پانچوں صفات آپ میں بدرجہء اتم موجود تھیں۔آپ کاسراپاحیات ہندوستانی تھالیکن سینے میںدل ِعربی رکھتے ھتے۔چہرے مہرے سے بغدادکے صوفی معلوم ہوتے تھے۔جناب غوث الثقلین شیخ عبدالقادرجیلانی ؓ سے والہانہ عشق تھا۔آپ یکے ازمطبوعات ِسیدعلی احمدشاہ قادریؒتھے۔مسلمانوںمیںبیسویں صدی میںجوچندعلمی وجودپیداہوئے، مخدوم العالم حضرت میاںسیدعلی احمدشاہ گیلانی قادریؒان میں سے ایک تھے۔برصغیرپاک وہندکے قریب قریب تمام آستانوں اوردرگاہوںمیںآپ کانام ادب سے لیاجاتاہے۔ سیدولی محمدشاہ صاحب ؒحضرت میاں صاحبؒ کے سب سے معتمد مرید اورخلیفہ تھے۔معرفت ِالٰہی کے سفرمیںحضرت میاں صاحب ؒکی دعائیں آپ کے ساتھ تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ہرسنگ ِمیل پرکامیابیوں نے آپ کااستقبال کیا۔ آپ ؒ کی عمرکی آخری دہائی زمانہ ء اشتہارتھی۔آپ میںلاکھ پزیرائی اورقبولیت ِعامہ کے باوجودمیں نام کونہ تھی۔آپ مظلوم عوام کے آنسوپونچھتے تھے۔بھٹکے ہوئوں کوراہ دکھاتے تھے۔ مایوسی کی دلدل میں غرق ہونے والوں کوکھینچ کرباہرنکال لیتے تھے۔امیددلاتے تھے۔زندگی سے ہارے ہوئوں کوحیات ِنو کی نویددیتے تھے۔آپ کی مجلس میں آکردلوں کے قفل ٹوٹ جاتے تھے اوران کی اتھاہ گہرائیوںسے خداورسولؐکی محبت کاایک سرچشمہ پھوٹ نکلتاتھا۔جب تک انسان آپ سے ملتانہ تھا،شریعت اورطریقت کے مخلوط خیالات میں الجھارہتاتھا۔آپ سے مل کراس کے دل ودماغ یوںروشن ہوجاتے تھے کہ تشکیک کاشائبہ تک نہ رہتا۔یوں آپ کے آستانے پرمعاشرتی بگاڑکی اصلاح ہوتی تھی۔ویسے کسی صاحب ِنظریاکسی ولی کوکسی کسوٹی پرپرکھنانہیں چاہئے ،لیکن میری ادنیٰ سی رائے میں ولی کے پاس بیٹھنے والاگناہ گاری کے احساس سے بے نیازہوجاتاہے۔وہ توایک ہی نظرمیں انسان کاشجرہ ء نسب پڑھ لیتے ہیں لیکن ڈانٹتے نہیں ، گناہ گارکومطعون نہیں کرتے۔شرمندہ نہیں کرتے۔لفظوں کوسونے کی طرح تولتے تھے اورپھربولتے تھے۔نہ توان کی بارگاہ میں بڑاکسی قسم کی بڑائی کے زعم میں مبتلارہ سکتاتھا اورنہ ہی چھوٹے کواپنے چھوٹے پن کاخیال پریشان کرتاتھا۔آیت ِربانی کے مطابق اولیاء اللہ کو نہ توکوئی خوف ہوتاہے اورنہ ہی حزن ۔کچھ ایساہی اثران کی مجلس میں بیٹھنے والوں پربھی پڑتاہے کہ وہ خوف اورفکرمال ومنال سے بے نیازہوجاتے ہیں۔سرزمین ِپیرشاہ کی مسندپرآپ ؒکادرخشندہ چہرہ دیکھ کرطالبان ِمعرفت اطمینان پاتے تھے۔آپ ؒکشف المحجوب کاانسانی قدوقامت میں ایک جیتاجاگتااظہارتھے۔معرفت ِالٰہی کی جیتی جاگتی تصویر۔شرافت واخلاق ،عجزونیازکے عناصر ِاربعہ کامجسمہ تھے۔ان محاسن ومحامدکامجموعہ ،جوخطہ ء بر ِصغیرمیں ایک کتابی تذکرہ بن کررہ گئے ہیں۔الغرض تاریخ ِاسلامی کی ان شخصیات میں سے تھے جن کااحترام کرنافرض اوراحترام نہ کرناگناہ جیسالگتاہے۔قلم کے بھی مجاہدتھے لیکن بے توجہی کے باعث آپ کے رشحات ِقلم تشنہ ء اشاعت رہ گئے ۔اگروہ کتابی صورت میں منظر ِعام پرآتے توطالبان ِعرفان وآگہی کیلئے تصوف وروحانیت کی اہم دستاویزہوتے ۔آپ کے فرزند ِاصغرسیدنورعالم گیلانی نے آپؒ کی سیرت کے جوچنداوراق تذکرہ ء سلطان العصرؒ کی صورت میں جمع کئے ہیں وہ قابل ِتقلیدہیں۔ اس وقت پاکستان میں جس قسم کی مسندنشینی رائج ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ ؒکوسلطان العصرکہنابے جانہیں ہے۔آپ کے عقیدتمندپاکستان کے گوشے گوشے میں موجودہیں۔بالخصوص ڈیرہ غازی خان،ملتان ،بہاولنگراورقبولہ شریف کے موجودعلماء ،دانشور،اساتذہ اورپیش اماموں کی کثیرتعدادآپ کی ارادت مندنکلے گی۔ اک ذراچھیڑئیے پھردیکھئے کیاہوتاہے ،والی بات ہے۔جب آپ کا وصال ہواتوپنجاب کے ہزاروں گھرانے ایسے رورہے تھے جیسے ان کاشفیق باپ ان سے بچھڑگیاہو۔جب تک آپ سراپاحیات تھے ،اہل ِپنجاب کیلئے آپ کادم غنیمت تھا۔زندگی کے صحرامیں،روزگار کی چلچلاتی دھوپ میں چل چل کرجاں بلب ہوجانے والے آکے آپ کے سائے میںپناہ لیتے تھے۔ اب آپ کادربارسایہ ء رحمت وعافیت ہے۔عشاق کیلئے دل وجاںٹھنڈک کاباعث ہے۔میں جب بھی تصویرمیںعینک کے پیچھے ان کی مسکراتی آنکھوں کودیکھتاہوں توخیال آتاہے کہ نہیں ،وہ دنیاسے کہیں گئے نہیں۔۔۔یہیں کہیں ہیں۔۔۔۔یہ مسکراہٹ کسی کرامت سے کم نہیںتھی۔چاندنی کی طرح ٹھنڈی ،دل میں کھب جانے والی مسکراہٹ۔سبحان اللہ!تاجدارِرسالتؐکی حیات ِطیبہ کاواقعہ رقم کرنے کوجی چاہتاہے۔ صحابیؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کی شدت بڑھ جاتی ،تلوارچلاتے چلاتے ہمارے بازوشل ہوجاتے ،دھوپ سوئیوں کی طرح چبھنے لگتی اورموت کاخوف ہماری روحوں کوچھوکرگزرنے لگتاتوہم فورانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ ء اقدس میں پناہ لیتے ،ان کے پاس کھڑے ہوجاتے ،وہ مسکراکردیکھتے اورپھرسارے خوف ختم ہوجاتے ،ساری تھکن دورہوجاتی ،سارے حوصلے پلٹ کرواپس آجاتے ،ہم نعرہ ء تکبیربلندکرتے اوردوبارہ رزم گاہ میں کودپڑتے۔اورمیں نے آپ کی بارگاہ میں اٹھنے بیٹھنے والوں کی زبانی سنااوران کی آنکھوں میں پڑھاہے کہ اس آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اولادعلی ؑکی مسکراہٹ میں ،سائے میں بھی بڑی ٹھنڈک اوراثرپزیری تھی۔اورکسی کی کیابات کہ میرے لئے توان کی تصویرہی اس سچ کی سب سے بڑی گواہی ہے۔عہد ِحاضر کے عظیم سخنور،حسان العصرجناب مظفروارثی دامت برکاتہم نے اس ولی ء کامل کویوں خراج ِتحسین پیش کیاہے۔سلطانِ عصر ، شاہ ولیؒ ، جانِ مصطفٰیؐرنگِ علی ؑ و بوئے گلستانِ مصطفٰیؐشانوں پہ تیرے ثبت قدم تیرے غوثؓ کےگونجے تیری فضائوں میں اعلانِ مصطفیؐلپٹی ہوئی ہیں رحمتیں تیرے مزار سےچادر ہے تیری گوشہ ء دامانِ مصطفیؐآیا ہوں تیرے در پہ سفارش کے واسطےاللہ سے ملے مجھے عرفانِ مصطفیؐخیرالوریٰؐ کی آل، مظفر کے محترمشمعِ محمدیؐ، گلِ گل دانِ مصطفیؐآپ کاعرس مبارک ہرسال ۴اور۵مارچ کوپیرشاہ،بہاولنگرمیںمنعقدہوتاہے۔