Thursday, October 9, 2008

کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی

فیض نے پرورش ِلوح وقلم کے لئے دل پرگزرنے والی وارداتوںکورقم کرناعین خدمت ِادب ِعالیہ بتایاہے ۔کل کی پوسٹ بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔
میری، ہوش سنبھالنے کے بعدپہلی دوستی کہانی سے ہوئی ۔۔۔کہانی ،کسی بھی روپ میں ہو۔۔۔ناول ہو،افسانہ ہو،ڈرامہ ہو۔۔۔گوش سے ، ہوش سے ،بصارت سے ،بصیرت سے بحیثیت ِمجموعی کہانی میری گہری وابستگی کامحوررہی ہے۔کہانی پڑھی بھی لکھی بھی ۔۔۔اوردیکھی بھی ! چونکہ آنکھوں دیکھازیادہ پراثرہوتاہے اس لئے شایدڈرامہ میری طبیعت سے زیادہ میچ کرتاہے ۔ڈرامہ بہت دیکھا۔۔۔آپ سوچیں گے کہ میں نے۔۔ دیکھے۔۔۔کالفظ کیوںاستعمال نہیں کیا۔۔۔کہ ڈرامے بہت دیکھے ۔۔۔بتاتاہوں۔
سیف زلفی نے کہاتھاکہ اندازِبیاںسے بات بدل جاتی ہے ۔کوئی بات نئی بات نہیں ہوتی ۔۔۔اسی بات کومیں یوںکہتاہوںکہ کوئی کہانی نئی کہانی نہیں ہوتی ۔۔۔اندازِتحریراسے ایک نیازاویہ دیتاہے ۔دنیاوہی ہے ،انسان وہی ہیں ،رشتے ناتے وہی ہیں ۔۔۔معاملات ِزندگی طے شدہ ہیں ۔گلا س آدھابھراہوابھی ہے ۔۔۔۔آدھاخالی بھی ہے ۔۔۔ایک نقطے کوتین سوساٹھ زاویوںسے دیکھاجاسکتاہے ۔یہی زاویہ ء نظرکہانیوںمیں حسن پیداکرتاہے ۔ڈرامے کو نکھارتا ہے ۔میں ڈراموںکوکبھی جمع کی شکل میں نہیں دیکھتا۔۔۔ڈرامہ میرے نزدیک اکائی ہے ۔۔۔ایک !۔۔۔شایدیہ مثل اس بات کی وضاحت کر پائے کہ ایک مچھلی سارے جل کوگنداکردیتی ہے ۔۔۔(گنداکرنے کامطلب برے اثرات مرتب کرنابھی لیاجاسکتاہے ) ایسے ہی ایک برا ڈرامہ بحیثیت ِمجموعی ڈرامے کا تاثرخراب کرتاہے اورایک اچھا ڈرامہ ایزآہول ڈرامے کی آرائش کردیتاہے ۔میراارادہ ڈرامے کی ساخت پرداخت پرکوئی روشنی ڈالنے کاہرگزنہیں ہے ۔یہ سب جومذکورہ بالاسطورمیں تحریرکیاگیاہے ۔یہ کہانی کوخراج ِتحسین پیش کرنے کے لئے تھا۔۔۔کہانی جوہرگھرکی ہے ۔۔۔کہانی جوگھرگھرکی ہے ۔نواب آرزو(سلیوٹ کے ساتھ )کے ان چند لفظوںنے میراکام کردیا۔خواہ مخواہ پوسٹ طویل ہوتی ۔جی ہاںیہ پوسٹ بھی کہانی گھرگھرکی ۔۔۔کے اختتام پرہی مبنی ہے ۔کیاکیاجائے کہ آخری چندہفتوںسے اس کے ساتھ ایک خاص دل بستگی سی ہوگئی تھی ۔۔۔۔ہاں،یادآیا۔۔۔جب سے پاروتی (ساکشی تنور)مینٹل اسائیلم گئی تھی تب سے میں نے اسے دوبارہ جوائن کیا۔اس سے پہلے توکبھی بھولاکبھی یادکیاوالی کیفیت رہی ،لیکن یہ آخری سپیل میرے خیال میں کہانی کامہتروپول (بہترین)حصہ رہاہے ۔پلوی (اچنت کور)،ساشا(چیتن )،ادتی ،پرگتی اورچھوٹوکے ٹیم ورک نے پاروتی کوگھرپہنچایااوردل میں گھرکرگئے ۔پاروتی جی کوتومیں سابقہ پوسٹ میں ہی پرنام کرچکاہوں۔۔۔دوسری بارپھرسہی ۔میرے خیال میں کہانی ۔۔۔سے کمزوربالاجی ٹیلی فلمزکے دواورسوپ تھے،قیامت اورکرم اپنااپنا۔۔۔ان میں سے کسی کوختم کردیاجاتا تو زیادہ بہترتھا۔کہانی ۔۔۔توپھرایک ریکارڈسازمعرکہ تھاجیساکہ پچھلی پوسٹ میں بھی میںنے لکھاتھاکہ یہ ڈرامہ سوپ اوپیراکے لئے ایک سنگ ِمیل رہے گا۔بات ہوتی ہے کرداروںکے فیمیلئرہونے کی ۔۔۔پاروتی ،اوم،کمل ،دادی ،ساشا،پلوی ،شروتی ۔۔۔اوربہت سے ایسے نام ہیں اسی ایک سیریل کے جوآئیکون بن چکے ہیں۔۔۔کسی شاعرنے کہاتھاکہ کہانی کی اسی میں آبروہے ۔اسے انجام سے ملنے نہ دینا۔شایدسوپ اوپیرااسی خیال کی تعبیرہے۔ یہ کہانی ختم ہوئی۔۔۔ لیکن کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔ یہ میرامانناہے ۔۔۔پاروتی کی نہیں توتلسی کی ۔۔ نہیں توکسی اورکی ۔۔۔کہانیاں ختم ہوجاتی ہے ۔۔۔لیکن کہانی ختم نہیںہوتی ۔۔۔ بالکل اسی طرح جیسے ۔۔۔زندگیاںختم ہوجاتی ہیں ۔۔۔لیکن زندگی ۔۔۔زندگی کبھی ختم نہیں ہوتی ۔

Wednesday, October 8, 2008

کہانی گھرگھرکی ،سوپ اوپیراکے لئے میل کاپتھرہے


جی ہاں۔۔۔آٹھ سال سے گھرگھرکی کہانی سناتی یہ دلچسپ سیریزبالآخراختتام پزیرہے ۔آپ سوپ سیریلزکی لاکھ مخالفت کرتے ہوں، کرتے رہئے ،سچ یہی ہے کہ سوپ سیریلزنے برصغیرپاک وہندمیںڈرامے کوایک نیاآسمان عطاکیاہے ۔یہ اوربات ہے کہ ہم اب بھی اپنے پرانے فارمولوںپرقائم ہیں،سوپیچھے ہیںلیکن اس وقت میراموضوع ِسخن اس کے سوااورنہیںہے کہ ایک اچھی سبق آموزسیریزکاخاتمہ ہواچاہتاہے ۔ہمارے ڈپٹی نذیراحمدصاحب نے تومدتوںپہلے مراۃ العروس لکھ کراصغری جیسی بہواردوادب کوسونپ دی تھی جسے بالاجی نے پاروتی تلسی اورپریرناجیسے شہرہ ء آفاق کرداروںمیںبدل کر گھرگرہستی میںمصروف خواتین کا دل موہ لیاہے ۔تلسی تونہیںالبتہ پاروتی یعنی ساکشی جی کی گھرواپسی کاوقت آگیاہے ۔کل کی حسین بہواورآج کی بومب شیل پریرنایعنی شویتاتیواری توپہلے ہی رخصت ہوچکی ہیں(کسوٹی زندگی کی ،جوگزشتہ برس انجام کوپہنچااورتاحال کسی سوپ سیریل سے محروم ہیں)بہرحال سورج طلوع ہوتاہے تواسے غروب بھی ہوناہوتاہے ۔کہانی گھرگھرکی کوبھی ختم ہوناتھاسووقت آگیاہے لیکن اس سوپ سیریل سے جڑے سبھی کردارتادیرناظرین کے ذہن ودل سے محونہیں ہوسکیں گے ۔ساکشی جی ۔۔۔ہیٹس آف ٹویو!بہت کم ایساہوتاہے کہ قلمکاراپنے جذبات کوزبان نہیں دے پاتا۔میرے لئے بھی ایک ایساہی لمحہ ہے ۔