Sunday, April 26, 2009

فنونِ لطیفہ کاسوئچ بورڈ ‘حنادل پز ِیر


حنادل پزیرفن کی رسیاہے ۔سچی ‘البیلی اورمتنوع آرٹسٹ۔ شعر‘فلسفہ ‘افسانہ ‘تھیٹر‘ڈراما‘اداکاری ‘نغمہ اورطنزومزاح ۔حناان سب منزلوںسے سرخرو گزری ہے۔شایداس میںمعانی کابھی حسن ہے کہ وہ جس ِمحفل میںموجودہو‘وہاںکوئی بہت اہم اوردلچسپ تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔وہ جب بولتی ہے توایسالگتاہے کہ کوئی بہتربات ہورہی ہے۔اسلوب ِبیان ایساہے کہ جوسنتاہے عش عش کراٹھتاہے۔ اس کی طبیعت میںحد درجہ شوخی ‘طراری اوربے باکی ہے ۔باتوں باتوں میں سامنے والے کی ایسی ایسی شگفتہ چٹکیاںلینے لگتی ہے کہ ہنستے ہنستے سب کی بری حالت ہوجاتی ہے ۔وہ آئے تو جیسے سیدضمیرجعفری یامشتاق احمدیوسفی کا متحرک لفظوں اوردلچسپ شوخیوںمیںتخلیق کردہ کوئی فن پارہ انسانی خدوخال اوڑھ کرسامنے آن موجودہوتاہے۔

حنادل پزیرکومیرے نگارخانہ ء محسوسات میںرہائش پزیرہوئے زیادہ دن نہیں ہوئے ۔پہلی باراسے گڈمارننگ پاکستان (اے آروائے کامارننگ شو)کے ویڈنگ ویک میں دیکھا۔اس کی شخصیت بڑی زوداثرتھی ‘ہڈیوںمیں رچ بس جانے والی ‘اپنی مہرلگادینے والی ۔ اگرچہ وہ روزبدلنے والے گیٹ اپ میں نمودارہوتی تھی اورلب ولہجہ بھی کردارکے مطابق تبدیل ہوجاتاتھالیکن تہہ میںکوئی ایسی بات ضرور تھی جوکچھ معمول سے ہٹی ہوئی محسوس ہوتی تھی ۔یہاںمیںفن ِاداکاری کے حوالے سے کچھ دل کی باتیں ضرورکہناچاہوںگا۔آج کا پاکستانی ڈراماکسی بھی اداکاریااداکارہ کے پرستارکے لئے انتشارکی دلدل بن گیاہے۔میںحناکی اداکاری کاکوئی اچھابراپہلوپیش نہیں کرنا چاہ رہا‘نہ ہی اس حوالے سے کوئی نئی بات کہہ سکتاہے ۔وہ بلاشبہ ایک عمدہ اداکارہ ہے لیکن مجھے یہ عرض کرنامقصودہے کہ میںپاکستانی ڈرامے میں آرٹسٹوںکے غیرمتاثرکن (بلکہ بے رونق اوربانجھ )گیٹ اپ کی وجہ سے اپنے پسندیدہ اداکاروںکے ڈرامے بھی چندمنٹ کے لئے نہیں دیکھتااوراکتاکرچینل بدل دیتاہوں۔اگرایک ناظرایسانہ کرے توفراغت کے جوچندلمحات مشکل سے اسے میسر آتے ہیں وہ بھی بوجھل ہوجائیںاورتنہائیاںاندھیرے میں ڈوب جائیں۔قصہ مختصریہ ہے کہ حقیقت پسندی بھی ضروری ہے لیکن وقت(سپوتنک ایج) کے تقاضے بھی بہرحال مقدم رکھنے چاہئیں۔

یہاں اس شو (مارننگ شو گڈمارننگ پاکستان)میں گیٹ اپ میںوہ وسعتیں‘تنوع اوررنگارنگی پائی جاتی ہے جودل لبھاتی ہے۔اب ہم واپس حناکی طرف آتے ہیں۔یہ شوحناکے فنی کیرئیرکے لئے حیات ِنواور’جانِ دیگر‘کی حیثیت رکھتاہے۔ویڈنگ ویک میںاس نے کرداروںکی جوکہکشاںبکھیری اس کاماخذ(گیٹ اپ ‘ سٹائلنگ اورسکرپٹنگ) بھی وہ خودہی تھی۔شادی کے حوالے سے جوکردارتھے ‘اس نے ان کی صحیح عکاسی کی۔ ایک حسن ہے جوپیداکیاجاتاہے ‘ملبوسات کے ذریعے ‘ سیٹ کے ذریعے ‘ایک حسن ہے ‘جوہوتاہے ‘بس اس کی نزاکت‘تہذیب اوررکھ رکھائو کاخیال کیاجاتاہے۔یہاںحناکاساراکام شخصیت کے اظہارکاکھیل ہے جوہرکھیل سے مشکل ہے ۔اس کھیل میں کامیابی کاصرف ایک ہی گرہے اوروہ ہے تجربات میں صداقت اورسوچ میں گہرا خلوص۔حنادل پزیراپنے نام کی طرح نظرفریب پیکر کی مالکہ ہے ۔ وہ شومیں آکربیٹھتی ہے توآن کی آن میں جانِ محفل بن جاتی ہے اورگفتگوصرف لطیفوں‘پھلجھڑیوںیاپھبتیوںتک ہی محدودنہیں رہتی بلکہ دنیاجہاں کے جس بھی موضوع پراس سے بات کی جاتی ہے تو اک ذراچھیڑئیے ‘پھردیکھئے کیاہوتاہے ‘والامعاملہ ہوتاہے۔

حنابھرپورادبی ذوق اورسماجی شعورسے بھری ہوئی گاگرہے ۔سطورِبالامیں جوحوالے بیان کئے ہیں ‘میں خودنہیں جانتاکہ پہل کہاں اور کس چیزمیں ہے۔اس کی ہربات شعرہے اورہرشعرمیں کچھ بات ہے ‘افسانہ ہے۔ میںتو کہوںگاکہ وہ’زندگی برائے فن‘اور’فن برائے زندگی ‘کی تفسیرہے اوران دنوںاس کافن انتہائی عروج پرہے۔اس کی زبان بے حدصاف ستھری اوررسیلی ہے ‘اس کی باتوںمیں کہیںغزل کی سی مٹھاس اورکہیںنظم کی سی روانی آجاتی ہے جس سے یہ اندازہ کرنامشکل نہیںکہ اس کاکتابی علم بھی خاصاوسیع ہے ۔زبان ومحاورہ پرقدرت اس کی ایسی خوبی ہے جوآج کل پاکستانی آرٹسٹوںمیں خال خال دکھائی دیتی ہے۔یہ بھی اس عہدکی ایک تلخ سچائی ہے کہ زمانے کی بے چینی اورمصروفیت میں ’’ادب ‘‘لکھنااورپڑھناغیرممکن ساہوگیاہے‘اس لئے سولہ آنے کی بجائے چارچھ آنے سے کام چلاناپڑتا ہے۔بات بھٹک نہ جائے اس لئے فنی دیانت اورآسانی کے لئے اتناکہوںگاکہ آج سطحی کام اوربے پروائی کے باعث ٹوٹے پھوٹے فنون (شعر‘افسانہ ‘ڈراما‘اداکاری ‘نغمہ اورطنزومزاح)جن چندفن کاروں کی طرف امیدبھری نظروںسے دیکھ رہے ہیں ‘حنادل پزیران پختہ کاروںمیں سے ایک ہے ۔

میرے خیال میںکسی فنکارکی پرکھ اس کے شعری ذوق سے ہوتی ہے(اس بات سے میرے علاوہ کسی کامتفق ہوناضروری بھی نہیں)۔فی زمانہ جب شعرکے معاملے میں ذوق شعرسننے کے بجائے گنگناناہوگیاہے ‘حنادل پزیرمعنی کے حسن کوشعرکے خدوخال میں ایسے حل کردیتی ہے کہ حرف وصوت کے دلدادگان اورکن رسوں کواس کے سلجھے اورمعیاری ذوق کا قائل ہوتے ہی بنتی ہے ‘حناکی غزل میں مشاہدے کی گہرائی اورمتوازن اسلوب کی وجہ سے اردوغزل کاارتقاء بہت واضح دکھائی دیتاہے۔مجھ تک اب تک اس کی جوغزلیںپہنچی ہیں ‘ان میں اس کی شعریت بڑی اجلی ‘جمیل اورجذباتیت سے پاک لگی اورمجھے بہت دیرتک سوچتاچھوڑگئی ۔

بکھرے بکھرے سے رہتے ہیں ‘ ساحل ‘ چاند ‘ ہوا اور میں
ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہیں ‘ ساحل ‘ چاند ‘ ہوا اور میں

جب پانی میں چاند کی کرنیں عکس بنانے لگتی ہیں
آپس میں کھیلا کرتے ہیں ‘ ساحل ‘ چاند ‘ ہوا اور میں

کوئی صدا مجبور کئے جاتی ہے ہمیں کچھ کہنے پر
بات مگر کم ہی کرتے ہیں ‘ ساحل ‘ چاند ‘ ہوا اور میں

گل خوشبو سے ‘ دل امید سے ‘ آنکھیں نیند سے خالی ہیں
برسوں بیتے جاگ رہے ہیں ‘ ساحل ‘ چاند ‘ ہوا اور میں

جی چاہاکہ وہ کچھ عرصہ اسی فن(شاعری) پر کام کرتی رہے اوراردوغزل میں ایسے خوبصورت اضافے کرتی جائے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کی شاعری بیکراں نسوانیت کی علامت نہیںرہی بلکہ کائنات ِدل سے دل ِکائنات کے سفرکی حسین رودادبن گئی ہے ‘ایک شاعرہ کے لئے یہ کسی اعزازسے کم نہیں کہ اس کی شعریت نسوانیت کے دریچوںاورروزن ومحراب کی قیدسے آزادہوکرعالمگیرکیفیات کی حامل ہوجائے۔ویسے توخود بھی اپنے ایک شعرمیں اس خیال کااظہارکرتی دکھائی دیتی ہے کہ آج وہ جس منزل پرکھڑی ہے وہاںکی مٹی کو اس نے اپنے پائوںپکڑنے نہیں دیے۔ وہ بے بس‘سراسیمہ‘مایوس یاشکست پسندوںمیںسے نہیںبلکہ ہمہ وقت اچھے مستقبل پرایمان رکھتے ہوئے اپنی سوچ کے راستے پر تلاش اورجستجوکاسفرطے کرنے والوںمیںسے ہے۔حناکے الفاظ میں۔

نگاہِ شوق ابھی تک کسی تلاش میں ہے
ترا جمال ‘ ترے خد و خال اپنی جگہ

دوسری خواتین شاعرات کے برعکس حنادل پزیرکی شاعری خواتین کے مخصوص ادب کی چاردیواری تک محدودنہیں‘اس کی یہی ناآسودگی اورنئی دنیاکی تمنااس کے اندرپوشیدہ بہت سے امکانات کوظاہرکرتی ہے ۔خداکرے کہ اس کی آزادی ء خیال کی یہ لویونہی تیزرہے اوراس کامجموعہ ء کلام جلدچھپ کردلدادگان ِشعرتک پہنچے۔اس سے پہلے کہ ہم شاعری کاموضوع ختم کریں‘ حناکے ہاںجدیدتر غزل کی بنیادیں پڑتے دیکھتے جائیے ۔وہ کہتی ہے ۔

ابھی تو گھیرے ہوئے ہے ہجوم ِ تنہائی
بقیدِ ہجر ‘ امیدِ وصال اپنی جگہ

جنونِ شوق بھی برسوں کے داغ دھو نہ سکا
اسی طرح سے ہے شیشے میں بال اپنی جگہ

بساطِ عشق پہ لٹتی رہے گی دولتِ دل
رہے گا سود و زیاں کا سوال اپنی جگہ

ہنسی خوشی کے یہ موسم تو آگئے لیکن
پڑا ہوا ہے محبت کا کال اپنی جگہ

حنا محبت ‘امن وآشتی اوراعلیٰ انسانی اقدارکی شاعرہ ہے ‘جب ان اجزامیں ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے تووہ اپناکرب چھپانہیں پاتی ۔نجانے کیوںپیرفضل صاحب کایہ شعرلکھنے کوبہت جی چاہ رہاہے(بے محل ہوتوپیشگی معافی کاخواستگارہوں)۔

فضل وچ شعراں دے ‘ ڈونگھی سوچ دا کی فائدہ
لوک مونہہ وہندے نیں ‘ اج کوئی ہنر وہندا نئیں

حنامیںزندگی اوراس کی توانائی کی قدروںکی علمبرداری کے سارے گن ہیںبلکہ شایدفنکارخودعظمت ِفن کااحترام کرنے والاہوتوزمانہ بھی بالآخراس کے فن کی عظمت کوتسلیم کرنے پرمجبورہوجاتاہے۔

خیالات ہیں کہ برسات کے پتنگوںکی طرح اڑے پھررہے ہیں‘کہیںیکجا نہیں ہوپارہے۔ارادہ توپکاپیٹھایہی تھاکہ حنادل پزیرپرکوئی ہنستامسکراتا ساکالم تحریرکروںگالیکن اب سوچتاہوںکہ اپنی کوتاہی ء فن کااعتراف کرہی لوں۔اتنے ہنستے مسکراتے لفظ نہ تومیرے قلم میں ہیںاورنہ ہی ایسے دلوںکوگدگدادینے والے قہقہہ مارحرف میرے کی بورڈکی کیزمیں ‘جو مل جل کرحنادل پزیرکوچارچھ عدد چاندلگاکرروشن کردیںاورمجھے جینیئس کامرتبہ دلادیں‘سوخواہ مخواہ کی مغزدردی اوربیکارکی جسمانی مشقت کرنے کے بجائے دومصرعے گھسیٹ کر پاندان اٹھاتااوردوکان بڑھاتاہوں۔

وہ اک شریر سے جھونکے کی طرح جب آیا
مجھے حیات کا ماحول خوشگوار لگا

سیدانوارگیلانی

Monday, April 20, 2009

ژی ٹی وی کی انمول ’رتن‘راجپوت


ژی ٹی وی کی انمول ’رتن‘راجپوت صاحب ایک زمانہ تھاکہ ٹیلی ویژن کی دنیامیں گنے چنے اداکاروں اوراداکارائوں کوبڑی اہمیت حاصل تھی ۔ہردوسرے ڈرامے میں وہی چہرے دکھائی دیتے تھے ۔سمجھاجاتاتھاکہ بس یہی قابل آرٹسٹ اورفن کے بہت بڑے شناورہیں لیکن جب سے پرائیویٹ چینلوں کاایک نیاعالم بساہے اورمیڈیاکی ایک نئی دنیاآبادہوئی ہے ‘چند آرٹسٹوں کوہی ثبات نہیں رہا ۔سوپ سیریلزہوں‘چیٹ شوزہوں یارئیلٹی شوز‘صرف سینئرزہی ہاٹ سیٹ کی رونق نہیں رہے ۔پہلے نیشنل چینلزکے زمانے میں توپرانے طوطوں کویونانی طب اورحکیم جالینوس کی تحقیق کی طرح اٹل سمجھاجاتاتھا۔آج کل ایسانہیں ہوتا۔خودفریبی کانشہ کرنے والوںکانشہ بڑی جلدی ہرن ہوجاتاہے۔روزنت نئے شوزشروع ہوتے ہیں ‘اجزائے ترکیبی بدلتے ہیں‘پسندناپسندبدلتی ہے اورٹی وی کانقشہ بھی بدل جاتاہے ۔مجید امجد کی زبان میں
یہ لوح ِدل ‘ یہ لوح ِدل نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے

ان دنوں ژی ٹی وی کی ایک نئی دریافت رتن راجپوت نئے سوپ سیریل ’اگلے جنم موہے بٹیاہی کیجو‘سے پنپنے کے لئے پوری فضاقائم کئے ہوئے ہے ۔رتن راجپوت اس سے پہلے این ڈی ٹی وی امیجن کے سوپ ’رادھاکی بیٹیاں کچھ کردکھائیں گی‘میں سپورٹنگ رول ادا کرکے دادپاچکی ہے لیکن ’اگلے جنم‘کااپناہی ایک رنگ ہے ۔رتن راجپوت نے اس سیریل سے جتنی تیزی سے توجہ اورقبول خاص وعام حاصل کی ہے ‘وہ قابل ِتعریف ہے ۔اس دھان پان اورسبک سی فرخندہ جمال ‘پری تمثال ‘ناہیدخصال اورآئینہ بدن لڑکی کودیکھ کرزندگی ‘توانائی‘تروتازگی اوررنگ وروپ کابھرپوراحساس پیداہوتاہے اورشاعرکایہ خیال رقم کرنے کوجی کرتاہے۔
شریرروحیں

ضمیر ِہستی کی آرزوئیں

چٹکتی کلیاں

کہ جن سے بوڑھی

اداس گلیاں مہک رہی ہیں

سیریل کاموضوع بھی رتن راجپوت کی طرح دل نشین ہے ۔یہ اس ’کچھ سخی اورکچھ بے سروساماں‘خاندان کے عزم وہمت کی داستان ہے جو’’گریزاں روشنی ‘‘کے تعاقب میں ہے ‘جوپائوں توڑکربیٹھنے اورہتھیارڈالنے کاقائل نہیں ‘جن کے ہاں مایوسی کفراورحرکت ہی مقصد ِزندگی ہے سووہ دردوں‘کربوں ظلموںاورمعاشرے کی نوچاکھسوٹی سے بڑی پامردی اوراستقامت کے ساتھ نبردآزماہیں۔’’اگلے جنم ‘‘کے ذریعے ژی نے ناظرین کوبھی بڑے حوصلے دئیے ہیں اورجذبہ وحساس کی نئی دنیائوںسے روشناس کرایاہے ۔یہ انڈین تخلیق کاروں کے فنی خلوص کاکرشمہ اورزندگی کانباہ ہے کہ وہ اتنے سچے ‘اچھوتے اورتنومنداندازمیں ناظرین کے دل ودماغ تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں کہ داددیتے ہی بنتی ہے ۔حفیظ جالندھری کایہ شعر اس سیریل کی ٹیگ لائن کے طورپراستعمال کیاجاسکتاہے ۔
آبروئے حیات کی خاطر۔آرزوئے حیات باقی ہے
آج کاناظررتن راجپوت سے صرف ِنظرنہیں کرسکتا۔اس نے بہت کم وقت میں اپنے فن کالوہامنوالیاہے ۔وہ آنے والے کل کاچہرہ ہے ‘تابندہ اورپاکیزہ۔اس کی اٹھان اس کے روشن مستقبل کی غمازی کرتی ہے ۔وہ جس چوکھٹ کاچراغ ہے وہاںافراط وتفریط کاکھٹکاتوبہرحال نہیں ہوتا‘بہرحال خداکرے ‘اسے ایسے کردارملیں جواس کے ہونٹوں کی طرح اس کی آنکھوں کوبھی مسکراہٹ سے آشناکردیں ۔مجھے یقین ہے کہ میری طرح دیگرناظرین بھی اس دن کے منتظرہیں۔