Monday, October 15, 2012

قارئینی حرام ٹھہری ہے

اس میں دورائے نہیں کہ ’’تحریر‘‘کی طرف ہمارے اکثرپڑھنے والوں کا رویہ سنجیدہ نہیں ۔۔۔وہ ’’الفاظ ‘‘کو تفننِ طبع اورایک ایسے مشغلے کے طورپراستعمال کرتے ہیں ‘جس کامقصدصرف اور صرف ’’وقت گزرانی‘‘ ہے ۔۔۔ آج بیشترقاری (پڑھنے والے)نادانستہ طورپر ہراس تحریرسے بچناچاہتے ہیں ‘جو دماغوں پرزورڈالنے کاتقاضاکرتی ہے ۔۔۔چنانچہ ’’اب مظفرادب پسندوں میں...قارئینی حرام ٹھہری ہے!‘‘ مجھے یوں لگتاہے کہ جب سے ’’ٹیکسٹ بُک‘‘ کی جگہ ’’ٹیکسٹ میسج‘‘ کی اصطلاح عام ہوئی ہے ۔۔۔کتاب کی طرف پڑھنے والوں کا رویہ ہی یکسربدل کررہ گیاہے۔۔۔عالم یہ ہے کہ کتابیں جھانکتی ہیں بندالماری کے شیشوں سے بڑی حسرت سے تکتی ہیں جوشامیں ان کی صحبت میں کٹاکرتی تھیں‘ اب اکثر گذرجاتی ہیں کمپیوٹرکے پردوں پر بڑ ی بے چین رہتی ہیں کتابیں___ انہیں اب نیندمیں چلنے کی عادت ہوگئی ہے (گلزار) آج معلومات بذریعہ ٹیلی کمیونی کیشن اوربذریعہ انٹرنیٹ ہواکے جھونکوں پر پھونکی جاتی ہیں ۔۔۔جنہیں ہم ایک سانس میں Inhaleکرتے ہیں تودوسرے ہی لمحے Exhaleکرکے ہواکامال ہواکو لوٹادیتے ہیں۔۔۔یعنی’’ہواؤں پہ لکھ دو‘ ہواؤں کے نام‘‘ بھئی بہت خوب۔۔۔اور اگران معلوماتی ’’نمونوں‘‘کواگر پڑھنے بیٹھئے توالا ماشاء اللہ ان میں سے بیشترمعلومات کافی ’’علم پروف‘‘ ثابت ہوتی ہیں ۔۔۔یوں لگتاہے جیسے مختلف بندکمروں میں بیٹھے ہوئے انسان اپنی اپنی دیواروں کی اینٹیں گن رہے ہیں ۔۔۔اگرپہلے کے الفاظ میں ان کی تعداد ’’ڈھائی ہزار‘‘ ہے تو دوسرے کے مطابق ’’پچیس سو‘‘اور تیسرے نے ’’بڑی معلومات افزاء‘‘خبردی تویہ کہ تین ہزارمیں پانچ سوہی کم ہیں۔۔۔واہ ‘ واہ‘ واہ! لکھنے والوں سے یہ توقع کرنا افسوس ناک رویہ ہے کہ وہ صرف وہی لکھیں ‘ جو احباب/قارئین کی ذہنی سطح سے بلندنہ ہو۔۔۔یاسنتے ہی ‘ پڑھتے ہی‘ بلکہ ’’اِک نظرڈالتے ہی ‘‘سمجھ میں آجائے ۔۔۔یعنی ’’خط کامضموں بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر‘‘والی کرامت آج کے زمانے میں ’’ٹکے ٹوکری ‘‘ ہوچکی ہے (یعنی اب ہرکوئی یہ کمال رکھتاہے)۔۔۔چنانچہ ’’رہینِ ستم ہائے روزگار‘‘لکھنے والے وہی لکھنے میں عافیت سمجھتے ہیں جو’’چلتاہے‘‘۔۔۔ چاہے وہ تحریرکتنی ہی بودی ‘ بے بنیاداوربے دلیل کیوں نہ ہو! جناب اخترالایمان نے اس صورتحال کی چندسطروں میں کیاخوب تشریح کی ہے کہ ’’کسی بھی ادب کی طرف یہ رویہ منفی رویہ ہے ‘ اس لئے کہ یہ احباب غیرارادی اور نادانستہ طورپر یہ بات کہتے ہیں کہ ادب میں نئے موضوعات کا اضافہ نہ کیاجائے، کسی نئی بات پر قلم نہ اٹھایا جائے ، کسی قسم کے فکری عناصرکورواج نہ دیاجائے اور ہئیت و تیکنیک کا کوئی تجربہ نہ کیاجائے ‘‘۔۔۔گویاذہنِ انساں نہ ہواکوئی مشین ہوگئی۔۔۔کہ ایک ہی سانچے میں ڈھلی پراڈکٹ کھٹاکھٹ نکالتی رہے۔۔۔بات یہ ہے کہ نہ پڑھنے والااپنے منہ کاذائقہ بدلنے پہ رضامند ہے ‘ نہ لکھنے والااپنی روش بدلنے پرقادر! لہو شرابی‘ بدن اندھیرا زبان گاہک‘ نگاہ منڈی ضمیر نّواب‘ ذہن کوٹھا خیال عیاش‘ سوچ رنڈی بتائیں کیا چاہتے ہیں آخر مرے وطن کے ادیب و شاعر (استادِسخن مظفروارثی) یہ سہل پسندی فرارکاراستہ ہے ۔۔۔مگرکس سے فرار؟ ۔۔۔خودسے؟ ۔۔۔اس معاشرے اور سماج سے ‘ جوہرگزہرگزآئیڈیل نہیں ہے ؟ ۔۔۔یازندگی سے ‘جوقدم قدم سمجھوتے کادوسرانام ہے ؟ ۔۔۔جوبھی ہے ‘ اس کی مثال اس تالاب کی سی ہے ‘ جس میں پانی ایک جگہ اکٹھاہوکررہ جاتاہے ۔۔۔چاہے اس میں باہر سے پانی آکرملتارہے ‘ مگر وہ خودباہر نہیں جاتاتوبالآخرایک جگہ پڑے پڑے سڑناشروع ہوجاتاہے۔ آپ کو میری تحریرسے یہ شکوہ ہوسکتاہے کہ اس میں اداسی ‘ بے دلی ‘ بے زاری اور بے کیفی کے رنگ بہت گہرے ہیں ۔۔۔چنانچہ ختمِ سخن کے طورپرنسخہ ء شفا کے طورپر اپنے استادِسخن مظفروارثی صاحب کاہی ایک شعررقم کرتاہوں۔ انوارزندہ،صحبت باقی!