Tuesday, February 26, 2008

پہلے مغل ِاعظم ۔ پھر جودھااکبر


فی زمانہ تاریخ پرفلم بنانافنانسرزکاپیسہ ڈبونے کے مترادف ہے۔ایساخیال ظاہرکیاگیاتھاجب تک جودھااکبرریلیزنہیں ہوگئی تھی۔اسوتوش گواریکرنے ملٹی میڈیااورانٹرنیٹ کے اس دورمیںجودھااکبرجیسی عظیم فلم تخلیق کرکے یہ ثابت کردیاہے کہ ان کے نزدیک فلم صرف ایک بزنس نہیں ہے بلکہ اس سے بہت اونچے درجے کی چیزہے۔بامقصدسینماکسے کہتے ہیں بالی ووڈمیں وقتافوقتااس کی بڑی عمدہ جھلک نظرآتی رہتی ہے ۔ اسوتوش نے لگان اورسودیس جیسی فلموں سے یہاں اپناایک منفردمقام بنارکھاہے۔ ایک توموضوعات کاتنوع اورپھراس پرعامرخان اورشاہ رخ خان جیسی سپرسٹارکاسٹ کی موجودگی نے فلم کیلئے سونے پرسہاگے کاکام کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فلم جودھااکبرکابڑی بے چینی سے انتظارکیاجارہاتھا۔
تاریخی موضوعات پر بننے والی فلمیں اکثر تنازعات کا شکار رہتی ہیں۔ فلم’جودھا اکبر‘ کی نمائش کی مخالفت میں کئی مقامات پر احتجاج ہوئے ہیں۔
بہترین فلم، اے آر رحمن کےبہترین نغمے، بہترین کہانی، بہترین ہدایتکاری اور اداکاری اب تک جتنی بھی تاریخی فلمیں بن چکی ہیں ان میں صرف ’مغل اعظم‘ اب تک کی سب سے کامیاب فلم تھی بلکہ اگر اسے یوں کہیں کہ یہ فلم بالی وڈ کی اب تک کی سب سے کامیاب فلم تھی تو بیجا نہ ہوگا۔
اور اس کی نقل کرنے کی بہت سے فلمسازوں نے ہمت کی لیکن کوئی کامیاب نہ ہو سکا ۔پوری فلم جسے مکمل طور پر رنگین بنا کر اس کے پرنٹ فروخت ہوئے اس نے بھی اب تک تقریبا تیس کروڑ روپے کما ئے ہیں ۔اس تاریخی فلم نے تاریخ بنا دی ہے۔ اسوتوش نے جودھااکبربناکرتاریخی فلموں کی تاریخ کاایک نیاورق کھول دیاہے مغلِ اعظم سے جودھااکبرتک کافلمی سفراڑتالیس سال پرمحیط ہے۔یہ نصف صدی کاقصہ ہے۔فلم انڈسٹری کی تاریخ جیسے کے آصف کویادکرتی ہے ایسے ہی اسوتوش گواریکرکویادرکھے گی۔ آخرمیں یہ جملہ لکھنے کوجی چاہ رہاہے ،جومتعددباردہرایاجانے کے باوجودگھسانہیں ہے بلکہ آج اڑتالیس سال کے بعداس کی معنویت دوچندہوگئی ہے۔ میری رائے میں تواسے جودھااکبرکی ٹائٹل لائن ہوناچاہئے تھا۔
با ادب با ملاحظہ ہو شیار! فخرِ شاہانِ ہند، تاجدارِتختِ دہلی، شانِ فرماروایانِ مغلیہ، جلال الدین محمد اکبر(ایک بارپھر) تشریف لا رہے ہیں۔۔۔

No comments: