مرحومہ قر ۃ العین حیدرنے کہاتھاکہ خوشی کے جلوس میں غم ساتھ ساتھ دبے پائوں چلتارہتاہے۔زمانے کی صراحی سے قطرہ قطرہ نئے حوادث ٹپکتے رہتے ہیں۔ہمارے یہاںان دنوں خودکش بمبارحملوں کی سیریزاپنے نقطہ ء عروج پرہے۔شہرشہرصف ماتم بچھی ہوئی ہے۔لاشیں ہیں کہ سمیٹنامشکل ہوگئی ہیں۔اب یہ خداجانے کہ یہ واقعی خودکش حملے ہی تھے یاغالب گمان کوہی مبنی برحقیقت سمجھ کرانہیں خودکش حملوں کے نام سے معنون کردیاگیاہے۔ صورتحال فی الحال قابوسے اس قدر باہراوراتنی سوہان ِروح ہوگئی ہے کہ آزادی اورجمہوریت نام کے شبدوں پرسے یقین ہی اٹھ گیاہے۔اس مسلسل ڈرائونے خواب نے کیااندرون کیابیرون ملک،پاکستان سے جذباتی وابستگی رکھنے والے ہرشخص کی نیندیںاڑارکھی ہیں۔پچھلے کچھ عرصے میں معصوم انسانوں کے خون سے جیسے ہولی کھیلی گئی ہے اس سے ظاہرہوتاہے کہ دہشت گروں کے مقاصدواضح نہیں ہیں۔آزادی ،جمہوریت ،اسلام یاکوئی بھی مقصدہو،انہیں شہری ،فوجی اورسیاسی اہداف کی کوئی تمیزنہیں ہے۔خون بہانے والے کسی مجنونانہ سی کیفیت سے دوچارہیں کہ یکے بعددیگرے بے گناہ عوام کوردی کے ٹکڑوں میں بدلتے چلے جارہے ہیں۔یہ بتائے بغیرکہ کسی کوان سے اتنی نفرت کیوں ہے یا انہیں کس جرم کی سزادی جارہی ہے ۔خودمارنے والوںکو نہیں معلوم کہ انہیں کسے اورکیوں مارناہے۔ان بہیمانہ کارروائیوں سے انہیں کیاحاصل ہوناہے ۔وہ نہیں جانتے کہ وکیلوں کی ریلی ، بینظیرکے جلسے اورمحرم کی مجلس میں کیافرق ہے
برصغیرپاک وہندپرانگریزقابض تھے،جنگ آزادی لڑی گئی۔۷۴۹۱تک لاکھوں جانیں گئیں۔پاکستان اورانڈیاآزادہوئے۔کشمیرمیں آزادی کی جنگ کب سے جاری ہے۔پوری قوم جارحیت اوربربریت کے سامنے استقامت کاپہاڑ بن کرڈٹی ہوئی ہے۔ وجہ سمجھ میں آتی ہے۔اب مجھے بتائیں کہ ۷۱جولائی کے جلسے میں شریک عوام کا،۸۱اکتوبریاستائیس دسمبرکے بموں سے چیتھڑوں کی طرح سڑکوں پربکھرجانے والی عوام کاکیاقصورتھاکہ ان پراتنی ہولناک موت نافذکی گئی کہ ان کے لواحقین کوانہیں زندہ یامردہ ڈھونڈنے میں ہفتے لگے ہوں گے ۔بعض کوتوشایداپنے پیاروں کاسراغ ہی نہ ملاہو۔۔۔۔۔۔ہنستے بستے گھراجڑگئے۔ان گنت انسانی جانیں کسی اندھے جنون کی بھینٹ چڑھ گئیں۔بلاتفریق مردوزن ،بوڑھے اوربچے ،ہزاروں بے بس نہتے ،غریب افرادجوپہلے ہی مہنگائی اورلاقانونیت کے ہاتھوں بے حال ہیں ،ان کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کے ایسے کون سے مقاصدہیں جوچوکوں میں ،جلسوں میںیاامام بارگاہوں میں بم پھاڑنے سے پورے ہوجائیں گے۔کتنی بے نظیرہلاکتوں کے بعدملک میں وہ آزادی ،وہ جمہوریت یاوہ انقلاب آئے گاجوانہیں درکارہے۔کوئی ان سے پوچھنے والاہوکہ کیاان کے پاس بم بارودکے علاوہ اورکوئی زبان ،کوئی راستہ نہیں۔ کیاوہ اس قوم کونعوذباللہ ہڑپہ ،ٹیکسلایاموہنجوداڑوبنادیناچاہتے ہےں۔کیاوہ زمانے کاپہیہ الٹ کراسے پتھراورغارکے دورمیں واپس لے جاناچاہتے ہیں۔اس ملک نہ سہی ، کیاوہ اس معاشرے کے کسی طبقے یاگروہ سے تعلق نہیںرکھتے ۔کیاان میںسے کوئی کسی کاباپ ،کسی کابیٹا،کسی کابھائی یادوست نہیں۔کیاوہ رشتوں کی قیدوبندسے آزادہیں۔ان کاکوئی آگے پیچھے نہیں۔نہیں معلوم کہ ان کاتعلق اس زمین بلکہ کرہ ء ارضی سے ہے بھی یانہیں۔وہ انسان بھی ہیںیاکوئی انسان نماغیرانسان۔وہ کسی دوسرے ملک کے باسی ہیں یاکسی دوسرے سیارے کے باشندے ہیںاوران کے سینوں میں دل کی جگہ کوئی دھات کاٹکڑانصب ہے جس میں تہذیب ،شائستگی،اخلاق مروت ،رحمدلی،ایمان اورحب الوطنی کی کوئی جگہ نہیں۔کیافرشتہ اجل نے انہیں اپناقائم مقام بنالیا ہے؟ظاہرہے جوکسی کاباپ نہیں یاکسی کابیٹانہیں،وہی اتنی مستعدی سے کسی باپ کی جان لے سکتاہے ۔ جوکسی کابھائی نہیں وہی کسی کی بہن یابھائی کے چیتھڑے اڑا سکتا ہے ۔
دنیابھرمیں اس وقت پاکستان کاجوامیج قائم ہورہاہے وہ کسی طرح بھی خوش آئندقرارنہیں دیاجاسکتا۔وطن ِعزیزجیسے مسلسل ایک حالت ِجنگ میں ہے۔پے درپے قومی سانحات نے تاریخ کے چہرے پرجوخون کے چھینٹے ڈالے ہیں اس کارنگ اترنے والانہیں ہے۔خون خون ہے چاہے وہ بے نظیرکاہویاکسی عام پاکستانی شہری کا۔ہرانسانی جان قیمتی ہے۔ یہاں توخودکش حملہ آورنام کاایک نامعلوم کہیں سے نمودارہوتاہے ۔فرشتہ ء اجل کی طرح کسی کودکھائی نہیں دیتا۔تمام سیکیوریٹی کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا باآسانی اپنے ٹارگٹ تک پہنچتاہے اورپھر۔۔۔۔ایک اورقومی سانحہ رونماہوجاتاہے۔سینکڑوںرگوں سے زندگی پانی کی بھاپ کی طرح اڑجاتی ہے۔پو رے ملک میں جلے کٹے،گلے سڑے گوشت کی تیزبوپھیل جاتی ہے۔بچتی ہیں ان گنت ادھ جلی ہڈیاں،بے شماربے گوروکفن نعشیںاورتعفن کے ڈھیر،جن کی سڑانددماغ چاٹ جاتی ہے۔ جوآدمی جرائم پیشہ ہوتاہے ، وہ اپناہرجرم چاہے کتناہی جان ہتھیلی پررکھ کرکرے ،زندگی کی شرط پرکرتاہے کیونکہ جرم کی دنیامیںکوئی بھی منفعت زندگی سے بڑھ کرنہیں ہوتی۔پھرخودکش حملوں کی سنگین روایت کیسے زورپکڑگئی۔عمومااس کاذمہ دار انتہاپسندمذہبی گروہوں کو قراردیاجاتارہاہے کہ وہ ناپختہ ذہنوں کوجہادکے نام پرخودکش حملوں کی ترغیب دے رہے ہیں۔اس طرح غیرمسلم ممالک توکیااسلامی دنیامیں اسلام کواجنبی بنایاجارہاہے۔اسلام جودین ِفطرت ہے جوآپ سے کسی ایسے عمل کاتقاضانہیں کرتاجوانسانی فطرت کے خلاف ہو۔دین ِاسلام میں خودکشی حرام قراردی گئی ہے اور جہاں معاملہ ان گنت معصوم انسانی جانوں اوراملاک کاہووہاںجہادکافلسفہ لاگوکرنے کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی۔حالات وواقعات کامشاہدہ کرنے پرجوسوال میرے ذہنی خلجان میں اضافہ کردیتاہے وہ یہ ہے کہ کہیں یہ بھی صرف ایک لیبل ہی تونہیںجوہربم دھماکے نماسانحے پرچسپاں کیاجانے لگاہے۔
شدیدمایوسی ،خوف اورتشویش کی کیفیات سے لپٹاہواایسادورشایدہی پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی آیاہو۔اس کے دامن میں سوائے صدیوں کے تعفن کے اورسیاہ گھوراندھیرے کے اورکچھ بھی نہیں۔کوئی خوشبو،کوئی تارہ،روشنی ،کوئی تبدیلی ،اصلاح ِاحوال کچھ بھی نہیں۔بدقسمتی سی بدقسمتی ہے۔وقت کے طوفان میں نہ کوئی نوح ہے اورنہ کشتی ء نوح۔ہمیں آج بھی اچھے برے کی تمیزنہیں۔امن ،ایمانداری ،غیرت اورخوف ِخداسوالیہ نشان بن گئے ہیں۔آئین اورقانون صرف دستورکی کتابوں میں سمٹ گئے ہیں۔مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور قانون نافذکرنے والاکوئی ادارہ ان کی سرکوبی کے لئے میدان ِعمل میں خاطرخواہ کارکردگی کامظاہرہ کرتاہوانظرنہیں آتا۔ارباب ِاختیارپتہ نہیں کون سے قومی فریضے سرانجام دینے میں مصروف ہیںکہ جرائم کی مذمت کے چندرٹے رٹائے الفاظ سے آگے بات بڑھ نہیں پاتی۔مجرموں کوکیفر ِکردارتک پہنچانے کے دعوے ہواکے جھونکوں کے ساتھ اڑجاتے ہیں۔کوئی عدالت کسی بڑے آدمی کوسزانہیں سناتی ،اصلی ظالم کوپکڑکرپھانسی پرنہیں چڑھاتی۔ساٹھ سال کے بعدایک بھی راہبرنہیں۔ہم ہرقدم پیچھے کھسک رہے ہیں۔ ہماراسرمایہ ہے فقط بوڑھی صدیوں کادکھ،گزشتہ برس سے آج تک آتش فشاں کی طرح پھٹتی ہزاروں چیخیں،کٹے پھٹے اعضاء ،جلے بجھے جسم،رستے زخم، ستائیس دسمبردوہزارسات کی خونی شام،گڑھی خدابخش کی تازہ قبر، ِجی پی اوچوک،عزاکی خونچکاںمجلس،اٹھتے دھوئیںاورلپکتے شعلے ،جوایک تازیانہ ہیں ۔ اجتماعی ضمیرپرایک کاری ضرب ہیں۔ان سوالوں کے تسلسل کی ایک کڑی ہےں جن کاکوئی جواب نہیں ،کوئی انصاف ، کوئی مواخذہ نہیں۔
برصغیرپاک وہندپرانگریزقابض تھے،جنگ آزادی لڑی گئی۔۷۴۹۱تک لاکھوں جانیں گئیں۔پاکستان اورانڈیاآزادہوئے۔کشمیرمیں آزادی کی جنگ کب سے جاری ہے۔پوری قوم جارحیت اوربربریت کے سامنے استقامت کاپہاڑ بن کرڈٹی ہوئی ہے۔ وجہ سمجھ میں آتی ہے۔اب مجھے بتائیں کہ ۷۱جولائی کے جلسے میں شریک عوام کا،۸۱اکتوبریاستائیس دسمبرکے بموں سے چیتھڑوں کی طرح سڑکوں پربکھرجانے والی عوام کاکیاقصورتھاکہ ان پراتنی ہولناک موت نافذکی گئی کہ ان کے لواحقین کوانہیں زندہ یامردہ ڈھونڈنے میں ہفتے لگے ہوں گے ۔بعض کوتوشایداپنے پیاروں کاسراغ ہی نہ ملاہو۔۔۔۔۔۔ہنستے بستے گھراجڑگئے۔ان گنت انسانی جانیں کسی اندھے جنون کی بھینٹ چڑھ گئیں۔بلاتفریق مردوزن ،بوڑھے اوربچے ،ہزاروں بے بس نہتے ،غریب افرادجوپہلے ہی مہنگائی اورلاقانونیت کے ہاتھوں بے حال ہیں ،ان کے خون سے ہولی کھیلنے والوں کے ایسے کون سے مقاصدہیں جوچوکوں میں ،جلسوں میںیاامام بارگاہوں میں بم پھاڑنے سے پورے ہوجائیں گے۔کتنی بے نظیرہلاکتوں کے بعدملک میں وہ آزادی ،وہ جمہوریت یاوہ انقلاب آئے گاجوانہیں درکارہے۔کوئی ان سے پوچھنے والاہوکہ کیاان کے پاس بم بارودکے علاوہ اورکوئی زبان ،کوئی راستہ نہیں۔ کیاوہ اس قوم کونعوذباللہ ہڑپہ ،ٹیکسلایاموہنجوداڑوبنادیناچاہتے ہےں۔کیاوہ زمانے کاپہیہ الٹ کراسے پتھراورغارکے دورمیں واپس لے جاناچاہتے ہیں۔اس ملک نہ سہی ، کیاوہ اس معاشرے کے کسی طبقے یاگروہ سے تعلق نہیںرکھتے ۔کیاان میںسے کوئی کسی کاباپ ،کسی کابیٹا،کسی کابھائی یادوست نہیں۔کیاوہ رشتوں کی قیدوبندسے آزادہیں۔ان کاکوئی آگے پیچھے نہیں۔نہیں معلوم کہ ان کاتعلق اس زمین بلکہ کرہ ء ارضی سے ہے بھی یانہیں۔وہ انسان بھی ہیںیاکوئی انسان نماغیرانسان۔وہ کسی دوسرے ملک کے باسی ہیں یاکسی دوسرے سیارے کے باشندے ہیںاوران کے سینوں میں دل کی جگہ کوئی دھات کاٹکڑانصب ہے جس میں تہذیب ،شائستگی،اخلاق مروت ،رحمدلی،ایمان اورحب الوطنی کی کوئی جگہ نہیں۔کیافرشتہ اجل نے انہیں اپناقائم مقام بنالیا ہے؟ظاہرہے جوکسی کاباپ نہیں یاکسی کابیٹانہیں،وہی اتنی مستعدی سے کسی باپ کی جان لے سکتاہے ۔ جوکسی کابھائی نہیں وہی کسی کی بہن یابھائی کے چیتھڑے اڑا سکتا ہے ۔
دنیابھرمیں اس وقت پاکستان کاجوامیج قائم ہورہاہے وہ کسی طرح بھی خوش آئندقرارنہیں دیاجاسکتا۔وطن ِعزیزجیسے مسلسل ایک حالت ِجنگ میں ہے۔پے درپے قومی سانحات نے تاریخ کے چہرے پرجوخون کے چھینٹے ڈالے ہیں اس کارنگ اترنے والانہیں ہے۔خون خون ہے چاہے وہ بے نظیرکاہویاکسی عام پاکستانی شہری کا۔ہرانسانی جان قیمتی ہے۔ یہاں توخودکش حملہ آورنام کاایک نامعلوم کہیں سے نمودارہوتاہے ۔فرشتہ ء اجل کی طرح کسی کودکھائی نہیں دیتا۔تمام سیکیوریٹی کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہوا باآسانی اپنے ٹارگٹ تک پہنچتاہے اورپھر۔۔۔۔ایک اورقومی سانحہ رونماہوجاتاہے۔سینکڑوںرگوں سے زندگی پانی کی بھاپ کی طرح اڑجاتی ہے۔پو رے ملک میں جلے کٹے،گلے سڑے گوشت کی تیزبوپھیل جاتی ہے۔بچتی ہیں ان گنت ادھ جلی ہڈیاں،بے شماربے گوروکفن نعشیںاورتعفن کے ڈھیر،جن کی سڑانددماغ چاٹ جاتی ہے۔ جوآدمی جرائم پیشہ ہوتاہے ، وہ اپناہرجرم چاہے کتناہی جان ہتھیلی پررکھ کرکرے ،زندگی کی شرط پرکرتاہے کیونکہ جرم کی دنیامیںکوئی بھی منفعت زندگی سے بڑھ کرنہیں ہوتی۔پھرخودکش حملوں کی سنگین روایت کیسے زورپکڑگئی۔عمومااس کاذمہ دار انتہاپسندمذہبی گروہوں کو قراردیاجاتارہاہے کہ وہ ناپختہ ذہنوں کوجہادکے نام پرخودکش حملوں کی ترغیب دے رہے ہیں۔اس طرح غیرمسلم ممالک توکیااسلامی دنیامیں اسلام کواجنبی بنایاجارہاہے۔اسلام جودین ِفطرت ہے جوآپ سے کسی ایسے عمل کاتقاضانہیں کرتاجوانسانی فطرت کے خلاف ہو۔دین ِاسلام میں خودکشی حرام قراردی گئی ہے اور جہاں معاملہ ان گنت معصوم انسانی جانوں اوراملاک کاہووہاںجہادکافلسفہ لاگوکرنے کی کوئی توجیہہ پیش نہیں کی جاسکتی۔حالات وواقعات کامشاہدہ کرنے پرجوسوال میرے ذہنی خلجان میں اضافہ کردیتاہے وہ یہ ہے کہ کہیں یہ بھی صرف ایک لیبل ہی تونہیںجوہربم دھماکے نماسانحے پرچسپاں کیاجانے لگاہے۔
شدیدمایوسی ،خوف اورتشویش کی کیفیات سے لپٹاہواایسادورشایدہی پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی آیاہو۔اس کے دامن میں سوائے صدیوں کے تعفن کے اورسیاہ گھوراندھیرے کے اورکچھ بھی نہیں۔کوئی خوشبو،کوئی تارہ،روشنی ،کوئی تبدیلی ،اصلاح ِاحوال کچھ بھی نہیں۔بدقسمتی سی بدقسمتی ہے۔وقت کے طوفان میں نہ کوئی نوح ہے اورنہ کشتی ء نوح۔ہمیں آج بھی اچھے برے کی تمیزنہیں۔امن ،ایمانداری ،غیرت اورخوف ِخداسوالیہ نشان بن گئے ہیں۔آئین اورقانون صرف دستورکی کتابوں میں سمٹ گئے ہیں۔مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور قانون نافذکرنے والاکوئی ادارہ ان کی سرکوبی کے لئے میدان ِعمل میں خاطرخواہ کارکردگی کامظاہرہ کرتاہوانظرنہیں آتا۔ارباب ِاختیارپتہ نہیں کون سے قومی فریضے سرانجام دینے میں مصروف ہیںکہ جرائم کی مذمت کے چندرٹے رٹائے الفاظ سے آگے بات بڑھ نہیں پاتی۔مجرموں کوکیفر ِکردارتک پہنچانے کے دعوے ہواکے جھونکوں کے ساتھ اڑجاتے ہیں۔کوئی عدالت کسی بڑے آدمی کوسزانہیں سناتی ،اصلی ظالم کوپکڑکرپھانسی پرنہیں چڑھاتی۔ساٹھ سال کے بعدایک بھی راہبرنہیں۔ہم ہرقدم پیچھے کھسک رہے ہیں۔ ہماراسرمایہ ہے فقط بوڑھی صدیوں کادکھ،گزشتہ برس سے آج تک آتش فشاں کی طرح پھٹتی ہزاروں چیخیں،کٹے پھٹے اعضاء ،جلے بجھے جسم،رستے زخم، ستائیس دسمبردوہزارسات کی خونی شام،گڑھی خدابخش کی تازہ قبر، ِجی پی اوچوک،عزاکی خونچکاںمجلس،اٹھتے دھوئیںاورلپکتے شعلے ،جوایک تازیانہ ہیں ۔ اجتماعی ضمیرپرایک کاری ضرب ہیں۔ان سوالوں کے تسلسل کی ایک کڑی ہےں جن کاکوئی جواب نہیں ،کوئی انصاف ، کوئی مواخذہ نہیں۔
No comments:
Post a Comment