جاویدچوہدری صحافتی کالم نویسی کاایک معتبرنام ہیں۔ ان کے کالمز عصرِحاضرکے سماجی اورسیاسی مسائل کا آئینہ ہوتے ہیں۔ آئینے میں اوران کے کالمزمیں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ آئینہ صرف عکس دکھاتاہے لیکن خرابیاں دورکرنے کیلئے حل تجویزنہیں کرتا۔ ان کے کالم نویسی کے سٹائل کوہمارے یہاں کافی موضوع ِبحث بنایاجاتاہے کہ وہ کالمزمیں افسانہ لکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے کالموں کے مجموعے زیروپوائنٹ میں اپنانظریہ ء فن یوں پیش کیاہے
کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے
(میری داستان، تھوڑی تھوڑی)
میرے کالم عموما کسی واقعے، داستان یا کہانی سے شروع ہوتے ہیں میرے ناقدین اس سٹائل کو افسانوی یا داستانی کہتے ہیں، میرے احباب کی یہ آبزرویشن بیک وقت درست بھی ہے اور غلط بھی، میں سب سے پہلے غلط کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں بڑے عرصے سے قومی اور بین الاقوامی ادب کا طالب علم چلا آ رہا ہوں چنانچہ میں سمجھتا ہوں افسانہ ادب کی معراج ہے اور یہ ایک ایسی نازک، اعلی اور ارفع صنف ہے جس میں کام کرنا اور اپنا مقام بنانا میرے جیسے چھوٹے، کم فہم اور جلد باز شخص کے بس کی بات نہیں، یہ ایک ایسی ملکوتی اور سماوی صنف ہے جس کا سہارا لینے پر ژاں پال سارتر جیسے فلسفی اور دوستوفسکی جیسے ادب کے امام تک مجبور ہو گۓ تھے میرا دعوی ہے جب کوئی ادیب فن کی انتہا کو چھوتا ہے تو اس وقت وہ افسانہ نویس کہلاتا ہے میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں صحافت ادب کے مقابلے میں ایک کم اہم، سطحی اور عارضی شعبہ ہے ادیب صدیوں پر محیط زمانوں کے لیے ادب تخلیق کرتے ہیں جبکہ ہم جیسے صحافیوں کے کام اور ہماری تحریروں کی عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی چنانچہ میرے جیسے دنیا دار صحافی کو افسانہ نویسی کا اعزاز بخشنا ادب اور افسانے دونوں کی توہین ہے اور جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں میرا خیال ہے انھوں نے کبھی کوئی اخبار پڑھا اور نہ ہی اچھے افسانے، ہاں البتہ اگر ایک پہلو سے دیکھا جاۓ تو ان لوگوں کی بات درست بھی ہے میں کالم میں وہی تکنیکس استعمال کرتا ہوں جو عموما افسانہ نویس اپنی تحریروں میں کرتے ہیں، افسانے میں کہانی ہوتی ہے اور میرے کالم میں بھی کہانی کا عنصر پایا جاتا ہے، افسانے میں کردار ہوتے ہیں جزئیات، تفصیل اور جذبات ہوتے ہیں اور میرے کالم میں بھی یہ تمام اجزاء پاۓ جاتے ہیں لیکن ان تمام اجزا کی موجودگی کے باوجود افسانے اور میرے کالم میں ایک بڑا فرق ہے، اس فرق کا نام حقیقت ہے افسانے کے تمام اجزاء غیر حقیقی اور فرضی ہوتے ہیں اور لکھاری افسانے میں اپنا فلسفہ اپنا نظریہ اور اپنے تخلیقی جوہر ثابت کرنے کے لیے کہانی اور کرداروں کا سہارا لیتا ہے
(میری داستان، تھوڑی تھوڑی)
میرے کالم عموما کسی واقعے، داستان یا کہانی سے شروع ہوتے ہیں میرے ناقدین اس سٹائل کو افسانوی یا داستانی کہتے ہیں، میرے احباب کی یہ آبزرویشن بیک وقت درست بھی ہے اور غلط بھی، میں سب سے پہلے غلط کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں بڑے عرصے سے قومی اور بین الاقوامی ادب کا طالب علم چلا آ رہا ہوں چنانچہ میں سمجھتا ہوں افسانہ ادب کی معراج ہے اور یہ ایک ایسی نازک، اعلی اور ارفع صنف ہے جس میں کام کرنا اور اپنا مقام بنانا میرے جیسے چھوٹے، کم فہم اور جلد باز شخص کے بس کی بات نہیں، یہ ایک ایسی ملکوتی اور سماوی صنف ہے جس کا سہارا لینے پر ژاں پال سارتر جیسے فلسفی اور دوستوفسکی جیسے ادب کے امام تک مجبور ہو گۓ تھے میرا دعوی ہے جب کوئی ادیب فن کی انتہا کو چھوتا ہے تو اس وقت وہ افسانہ نویس کہلاتا ہے میں یہ بھی اعتراف کرتا ہوں صحافت ادب کے مقابلے میں ایک کم اہم، سطحی اور عارضی شعبہ ہے ادیب صدیوں پر محیط زمانوں کے لیے ادب تخلیق کرتے ہیں جبکہ ہم جیسے صحافیوں کے کام اور ہماری تحریروں کی عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی چنانچہ میرے جیسے دنیا دار صحافی کو افسانہ نویسی کا اعزاز بخشنا ادب اور افسانے دونوں کی توہین ہے اور جو لوگ یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں میرا خیال ہے انھوں نے کبھی کوئی اخبار پڑھا اور نہ ہی اچھے افسانے، ہاں البتہ اگر ایک پہلو سے دیکھا جاۓ تو ان لوگوں کی بات درست بھی ہے میں کالم میں وہی تکنیکس استعمال کرتا ہوں جو عموما افسانہ نویس اپنی تحریروں میں کرتے ہیں، افسانے میں کہانی ہوتی ہے اور میرے کالم میں بھی کہانی کا عنصر پایا جاتا ہے، افسانے میں کردار ہوتے ہیں جزئیات، تفصیل اور جذبات ہوتے ہیں اور میرے کالم میں بھی یہ تمام اجزاء پاۓ جاتے ہیں لیکن ان تمام اجزا کی موجودگی کے باوجود افسانے اور میرے کالم میں ایک بڑا فرق ہے، اس فرق کا نام حقیقت ہے افسانے کے تمام اجزاء غیر حقیقی اور فرضی ہوتے ہیں اور لکھاری افسانے میں اپنا فلسفہ اپنا نظریہ اور اپنے تخلیقی جوہر ثابت کرنے کے لیے کہانی اور کرداروں کا سہارا لیتا ہے
No comments:
Post a Comment