Tuesday, February 12, 2008

پکچرابھی باقی ہے میرے دوست



دودن ہوئے ایک ایس ایم ایس ملاجس میں حالات حاضرہ کابڑاخوبصورت نقشہ کھینچاگیاتھا۔سیاست کوفلم سے تشبیہہ دیتے ہوئے سیاسی شخصیات اورمقامات کوایکٹر،سپورٹنگ ایکٹر،ایکشن ،کامیڈین،ڈانسرزاورسکرپٹ رائٹرزکی کیٹیگریزمیں تقسیم کیاگیاتھا۔عوام کوفنانسرزکی کیٹیگری میں رکھاگیاتھا۔اس کوپڑھ کرجوذراغورکیاتواندازہ ہواکہ ملکی سیاست میںفلم سے زیادہ سوپ ڈرامے کی جھلک زیادہ دکھائی دیتی ہے۔ فلم توپھرختم ہوجاتی ہے۔سوپ چلتارہتاہے ۔سیاست بھی چلتی رہتی ہے۔کہانی بدلتی رہتی ہے ،سوپ وہی رہتاہے۔سیاسی سوپ ڈرامہ بھی بیٹھے بٹھائے مہنگائی،کشت وخون،بدامنی ،قتل وغارتگری اورہڑتالوںکے ساتھ آٹے ،بجلی اورگیس جیسے ان گنت بحرانوں کی نئی قسطیں دکھاتارہتاہے۔فرق صرف اتناہے کہ سوپ ڈرامہ بے ضررہوتاہے۔اس میں دکھائی جانے والی ہرکہانی سکرین تک ہی محدودرہتی ہے ۔پولیٹیکل سوپ کی ہرکہانی ڈائریکٹ یااِن ڈائریکٹ افرادِمعاشرہ پراثراندازہوتی ہے۔پولیٹیکل سوپ کی موجودہ اقساط کاموضوع ہے 18فروری کوہونے والے الیکشنز۔ الیکشن ہوں گے یانہیں ہوں گے ؟ہوں گے توان کانتیجہ کیاطے کیاگیاہے یہ سوال تب تک سوال ہی رہےں گے ،جب تک الیکشن ہونہیں جاتے۔سیاست میں کوئی بات حرف ِآخرنہیں ہوتی۔فلم ہویاسوپ ،ان کاٹریلران کی کہانی سے ہی اخذکیاجاتاہے ۔یہاں سیاسی ڈرامہ آن ائیرہونے تک اکثرصیغہ ء رازمیں رہتاہے۔ٹریلرصرف یہ بتانے کیلئے ہوتے ہیں کہ پکچرابھی باقی ہے میرے دوست
سیاسی مداری ایک بارپھردانت تیزکرکے عوام پربذریعہ الیکشن جھپٹنے اورمنتخب ہوکران کی گردنوں میں پنجے گاڑنے کیلئے تیارہیں۔انتخابی امیدواروں کی فہرستیں دیکھ لیں،پارٹیاں کم اور موقع پرستوں کااکٹھ زیادہ ہے ،آج ہاتھ ملانے والوںمیں کل گردنیں کاٹنے والے کتنے ہوں گے۔جی ہاں عوام کی گردنیں۔کتنے لوگ ہیں کہ جن کی جڑیں عوام میں ہیں۔جن کی کمٹ منٹ خودسے نہیں عوام سے ہے،باقی وہی لوگ ہیں کہ قتل کرکے بھی جن کے دامن پاک صاف اورخنجربے داغ ہیں۔قانون ان کی کوٹھیوں کے اندرداخل نہیں ہوسکتاکیونکہ ان کے ہاتھ قانون اورعدل سے زیادہ لمبے ہیں(نہ یقین آئے توچنددن پہلے کے اخبارات اٹھاکرکوہاٹ کے سابق وفاقی وزیرِقانون افتخارحسین گیلانی کاواقعہ اٹھاکرپڑھ لیں،جن کی گاڑی روکنے کی پاداش میںایک نوجوان اے ایس پی کوکوہاٹ سے ٹرانسفرکردیاگیاتھا)۔ بیشترامیدوارایسے ہیں جوپہلے بھی اراکین اسمبلی رہ چکے ہیں۔وسیع پیمانے پرلوٹ کھسوٹ ،اقرباپروری ،لاکھوںغریبوں کی زندگی بھرکی جمع پونجی لوٹ کرہضم کرنے کے ناقابل ِمعافی جرائم کرچکے ہیں۔پچھلی بارجولوٹاتھااس کی صفائی نہ دینے والاکوئی ہے اورنہ تقاضاکرنے والاکوئی۔ان کی کیابات کیجئے کہ پاکستان اورملک وقوم کے وسیع تر مفادسے کم کی کوئی بات نہیں کرتا۔یہ الگ بات کہ اپنے حلقے پرعرصہ حکومت میں ان کی نظرہی نہیں جاتی ۔ایک ہولناک پس منظرمیں شفاف انتخابات کاانعقادایک چیلنج بن کرکھڑاہے۔ہندوستان کی صرف5%اقلیت ہوتے ہوئے رائے عامہ کی جس طاقت نے ۵۴۔۶۴کے نازک حالات میں مسلم لیگ کوکامیاب کراتے ہوئے قیام پاکستان کی راہ ہموارکی اوربرصغیرکاجغرافیہ بدل کررکھ دیاتھا،آج فوج اورسیاست کی آپسی زورآزمائی ،نام نہادعوامی نمائندوں کی نظریاتی قلابازیوں اورتبدیل ہوتی وفاداریوں سے جنم لینے والے تلخ حقائق کودیکھتے ہوئے منقسم اوربے جان نظرآتی ہے۔فکری ہم آہنگی اورمقصدکی تڑپ جوایک بیدارشدہ رائے عامہ کاخاصہ ہوتی ہے ،مفقودہے۔ان دنوں عوام کے ہاتھ پیرتوسردی نے یوں بھی سن کررکھے ہیں اب ان میں حرارت توتب ہی پیداہوسکتی ہے جب کوئی ان کے مسائل کوعملی بنیادوں پرحل کرکے دکھائے اورظاہرہے ایسااسی وقت ہوسکتاہے جب ملک جمہوری سطح پرمستحکم ہو۔

No comments: