Monday, March 10, 2008

پنجاب میںاسلاف کی آخری صدا


علم اورعمل دونوں صفات یکجاہوںتوسیدولی محمدشاہ صاحب ؒکی شخصیت وجودمیں آتی ہے۔آپ بیسویں صدی کے ان گنے چنے صوفیاء میں سے ہیں جن کے سبب فقرواستغناکابوریہ قائم ہے۔قرون اولی کے جن مسلمانوںکاتاریخ میںذکرملتاہے آپ ان کی ہوبہوتصویرتھے۔پیغمبری وقت کامحاورہ آپ کے قدوقامت،اخلاق حسنہ،کمالات اوردینی وجاہت پرصادق آتاہے۔ڈیرہ غازی خان،ملتان ،بہاولنگراورقبولہ شریف کی عوام کے دلوںپرآپ کی عظمت کے انمٹ نقش کھدے ہوئے ہیں۔عربی کی مشہورکہاوت ہے کہ حسن وہ ہوتاہے جس کاسوکنوں کوبھی اعتراف ہو۔علمائے وقت ہوں یاصوفیائے زمانہ ،سبھی آپ کی عالمانہ اورصوفیانہ شان کی گواہی دیتے تھے۔یوںکہئے کہ پنجاب بلکہ پاکستان میںآپ اسلاف کی آخری صداتھے۔اب شایدان اوصاف کے لوگ پیدانہیں ہوتے تبھی توبالعموم پنجاب اوربالخصوص ڈیرہ غازی خان،ملتان ،بہاولنگراورقبولہ شریف کی نئی پودجب اس مردخداکے بارے میں جب سنتی یاپڑھتی ہے توحیران ہوتی ہے کہ ایسی اجلی سیرت کے انسان بھی ہواکرتے تھے! آپ میں سے بیشترافرادایسے ہوں گے جویہ نام پہلی مرتبہ پڑھ رہے ہوں ہوں گے لیکن اس کے باوجودآپ کویہ نام اجنبی نہیں لگے گا۔سید۔ولی۔ محمد۔شاہ ۔گیلانی۔ یہ نام پانچ اسماء کامجموعہ ہے اوران پانچوں اسماء کامرکزہے نام ِمحمدصلی اللہ علیہ وسلم۔باقی سب اسی اسم ِمبارک کی کرنیں ہیں۔اسی ایک نورکے دھارے ہیں۔آپ کے نام میں شریعت بھی ہے اورطریقت بھی۔حسن بھی ہے اورثواب بھی۔اقبال نے اپنی شاعری میںایک مسلمان کی جوتصویرپیش کی ہے،آپ ؒاس تخیل کاہی ایک حصہ معلوم ہوتے ہیں۔بوئے اسداللہی ،سوزوسازِرومی اورپیچ وتاب ِرازی ،عجم کاحسن ِطبیعت اورعرب کاسوزِدروں۔یہ پانچوں صفات آپ میں بدرجہء اتم موجود تھیں۔آپ کاسراپاحیات ہندوستانی تھالیکن سینے میںدل ِعربی رکھتے ھتے۔چہرے مہرے سے بغدادکے صوفی معلوم ہوتے تھے۔جناب غوث الثقلین شیخ عبدالقادرجیلانی ؓ سے والہانہ عشق تھا۔آپ یکے ازمطبوعات ِسیدعلی احمدشاہ قادریؒتھے۔مسلمانوںمیںبیسویں صدی میںجوچندعلمی وجودپیداہوئے، مخدوم العالم حضرت میاںسیدعلی احمدشاہ گیلانی قادریؒان میں سے ایک تھے۔برصغیرپاک وہندکے قریب قریب تمام آستانوں اوردرگاہوںمیںآپ کانام ادب سے لیاجاتاہے۔ سیدولی محمدشاہ صاحب ؒحضرت میاں صاحبؒ کے سب سے معتمد مرید اورخلیفہ تھے۔معرفت ِالٰہی کے سفرمیںحضرت میاں صاحب ؒکی دعائیں آپ کے ساتھ تھیں۔یہی وجہ ہے کہ ہرسنگ ِمیل پرکامیابیوں نے آپ کااستقبال کیا۔ آپ ؒ کی عمرکی آخری دہائی زمانہ ء اشتہارتھی۔آپ میںلاکھ پزیرائی اورقبولیت ِعامہ کے باوجودمیں نام کونہ تھی۔آپ مظلوم عوام کے آنسوپونچھتے تھے۔بھٹکے ہوئوں کوراہ دکھاتے تھے۔ مایوسی کی دلدل میں غرق ہونے والوں کوکھینچ کرباہرنکال لیتے تھے۔امیددلاتے تھے۔زندگی سے ہارے ہوئوں کوحیات ِنو کی نویددیتے تھے۔آپ کی مجلس میں آکردلوں کے قفل ٹوٹ جاتے تھے اوران کی اتھاہ گہرائیوںسے خداورسولؐکی محبت کاایک سرچشمہ پھوٹ نکلتاتھا۔جب تک انسان آپ سے ملتانہ تھا،شریعت اورطریقت کے مخلوط خیالات میں الجھارہتاتھا۔آپ سے مل کراس کے دل ودماغ یوںروشن ہوجاتے تھے کہ تشکیک کاشائبہ تک نہ رہتا۔یوں آپ کے آستانے پرمعاشرتی بگاڑکی اصلاح ہوتی تھی۔ویسے کسی صاحب ِنظریاکسی ولی کوکسی کسوٹی پرپرکھنانہیں چاہئے ،لیکن میری ادنیٰ سی رائے میں ولی کے پاس بیٹھنے والاگناہ گاری کے احساس سے بے نیازہوجاتاہے۔وہ توایک ہی نظرمیں انسان کاشجرہ ء نسب پڑھ لیتے ہیں لیکن ڈانٹتے نہیں ، گناہ گارکومطعون نہیں کرتے۔شرمندہ نہیں کرتے۔لفظوں کوسونے کی طرح تولتے تھے اورپھربولتے تھے۔نہ توان کی بارگاہ میں بڑاکسی قسم کی بڑائی کے زعم میں مبتلارہ سکتاتھا اورنہ ہی چھوٹے کواپنے چھوٹے پن کاخیال پریشان کرتاتھا۔آیت ِربانی کے مطابق اولیاء اللہ کو نہ توکوئی خوف ہوتاہے اورنہ ہی حزن ۔کچھ ایساہی اثران کی مجلس میں بیٹھنے والوں پربھی پڑتاہے کہ وہ خوف اورفکرمال ومنال سے بے نیازہوجاتے ہیں۔سرزمین ِپیرشاہ کی مسندپرآپ ؒکادرخشندہ چہرہ دیکھ کرطالبان ِمعرفت اطمینان پاتے تھے۔آپ ؒکشف المحجوب کاانسانی قدوقامت میں ایک جیتاجاگتااظہارتھے۔معرفت ِالٰہی کی جیتی جاگتی تصویر۔شرافت واخلاق ،عجزونیازکے عناصر ِاربعہ کامجسمہ تھے۔ان محاسن ومحامدکامجموعہ ،جوخطہ ء بر ِصغیرمیں ایک کتابی تذکرہ بن کررہ گئے ہیں۔الغرض تاریخ ِاسلامی کی ان شخصیات میں سے تھے جن کااحترام کرنافرض اوراحترام نہ کرناگناہ جیسالگتاہے۔قلم کے بھی مجاہدتھے لیکن بے توجہی کے باعث آپ کے رشحات ِقلم تشنہ ء اشاعت رہ گئے ۔اگروہ کتابی صورت میں منظر ِعام پرآتے توطالبان ِعرفان وآگہی کیلئے تصوف وروحانیت کی اہم دستاویزہوتے ۔آپ کے فرزند ِاصغرسیدنورعالم گیلانی نے آپؒ کی سیرت کے جوچنداوراق تذکرہ ء سلطان العصرؒ کی صورت میں جمع کئے ہیں وہ قابل ِتقلیدہیں۔ اس وقت پاکستان میں جس قسم کی مسندنشینی رائج ہے اسے دیکھتے ہوئے آپ ؒکوسلطان العصرکہنابے جانہیں ہے۔آپ کے عقیدتمندپاکستان کے گوشے گوشے میں موجودہیں۔بالخصوص ڈیرہ غازی خان،ملتان ،بہاولنگراورقبولہ شریف کے موجودعلماء ،دانشور،اساتذہ اورپیش اماموں کی کثیرتعدادآپ کی ارادت مندنکلے گی۔ اک ذراچھیڑئیے پھردیکھئے کیاہوتاہے ،والی بات ہے۔جب آپ کا وصال ہواتوپنجاب کے ہزاروں گھرانے ایسے رورہے تھے جیسے ان کاشفیق باپ ان سے بچھڑگیاہو۔جب تک آپ سراپاحیات تھے ،اہل ِپنجاب کیلئے آپ کادم غنیمت تھا۔زندگی کے صحرامیں،روزگار کی چلچلاتی دھوپ میں چل چل کرجاں بلب ہوجانے والے آکے آپ کے سائے میںپناہ لیتے تھے۔ اب آپ کادربارسایہ ء رحمت وعافیت ہے۔عشاق کیلئے دل وجاںٹھنڈک کاباعث ہے۔میں جب بھی تصویرمیںعینک کے پیچھے ان کی مسکراتی آنکھوں کودیکھتاہوں توخیال آتاہے کہ نہیں ،وہ دنیاسے کہیں گئے نہیں۔۔۔یہیں کہیں ہیں۔۔۔۔یہ مسکراہٹ کسی کرامت سے کم نہیںتھی۔چاندنی کی طرح ٹھنڈی ،دل میں کھب جانے والی مسکراہٹ۔سبحان اللہ!تاجدارِرسالتؐکی حیات ِطیبہ کاواقعہ رقم کرنے کوجی چاہتاہے۔ صحابیؓ فرماتے ہیں کہ جب جنگ کی شدت بڑھ جاتی ،تلوارچلاتے چلاتے ہمارے بازوشل ہوجاتے ،دھوپ سوئیوں کی طرح چبھنے لگتی اورموت کاخوف ہماری روحوں کوچھوکرگزرنے لگتاتوہم فورانبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ ء اقدس میں پناہ لیتے ،ان کے پاس کھڑے ہوجاتے ،وہ مسکراکردیکھتے اورپھرسارے خوف ختم ہوجاتے ،ساری تھکن دورہوجاتی ،سارے حوصلے پلٹ کرواپس آجاتے ،ہم نعرہ ء تکبیربلندکرتے اوردوبارہ رزم گاہ میں کودپڑتے۔اورمیں نے آپ کی بارگاہ میں اٹھنے بیٹھنے والوں کی زبانی سنااوران کی آنکھوں میں پڑھاہے کہ اس آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم اولادعلی ؑکی مسکراہٹ میں ،سائے میں بھی بڑی ٹھنڈک اوراثرپزیری تھی۔اورکسی کی کیابات کہ میرے لئے توان کی تصویرہی اس سچ کی سب سے بڑی گواہی ہے۔عہد ِحاضر کے عظیم سخنور،حسان العصرجناب مظفروارثی دامت برکاتہم نے اس ولی ء کامل کویوں خراج ِتحسین پیش کیاہے۔سلطانِ عصر ، شاہ ولیؒ ، جانِ مصطفٰیؐرنگِ علی ؑ و بوئے گلستانِ مصطفٰیؐشانوں پہ تیرے ثبت قدم تیرے غوثؓ کےگونجے تیری فضائوں میں اعلانِ مصطفیؐلپٹی ہوئی ہیں رحمتیں تیرے مزار سےچادر ہے تیری گوشہ ء دامانِ مصطفیؐآیا ہوں تیرے در پہ سفارش کے واسطےاللہ سے ملے مجھے عرفانِ مصطفیؐخیرالوریٰؐ کی آل، مظفر کے محترمشمعِ محمدیؐ، گلِ گل دانِ مصطفیؐآپ کاعرس مبارک ہرسال ۴اور۵مارچ کوپیرشاہ،بہاولنگرمیںمنعقدہوتاہے۔

No comments: