Monday, April 20, 2009

ژی ٹی وی کی انمول ’رتن‘راجپوت


ژی ٹی وی کی انمول ’رتن‘راجپوت صاحب ایک زمانہ تھاکہ ٹیلی ویژن کی دنیامیں گنے چنے اداکاروں اوراداکارائوں کوبڑی اہمیت حاصل تھی ۔ہردوسرے ڈرامے میں وہی چہرے دکھائی دیتے تھے ۔سمجھاجاتاتھاکہ بس یہی قابل آرٹسٹ اورفن کے بہت بڑے شناورہیں لیکن جب سے پرائیویٹ چینلوں کاایک نیاعالم بساہے اورمیڈیاکی ایک نئی دنیاآبادہوئی ہے ‘چند آرٹسٹوں کوہی ثبات نہیں رہا ۔سوپ سیریلزہوں‘چیٹ شوزہوں یارئیلٹی شوز‘صرف سینئرزہی ہاٹ سیٹ کی رونق نہیں رہے ۔پہلے نیشنل چینلزکے زمانے میں توپرانے طوطوں کویونانی طب اورحکیم جالینوس کی تحقیق کی طرح اٹل سمجھاجاتاتھا۔آج کل ایسانہیں ہوتا۔خودفریبی کانشہ کرنے والوںکانشہ بڑی جلدی ہرن ہوجاتاہے۔روزنت نئے شوزشروع ہوتے ہیں ‘اجزائے ترکیبی بدلتے ہیں‘پسندناپسندبدلتی ہے اورٹی وی کانقشہ بھی بدل جاتاہے ۔مجید امجد کی زبان میں
یہ لوح ِدل ‘ یہ لوح ِدل نہ اس پہ کوئی نقش ہے نہ اس پہ کوئی نام ہے

ان دنوں ژی ٹی وی کی ایک نئی دریافت رتن راجپوت نئے سوپ سیریل ’اگلے جنم موہے بٹیاہی کیجو‘سے پنپنے کے لئے پوری فضاقائم کئے ہوئے ہے ۔رتن راجپوت اس سے پہلے این ڈی ٹی وی امیجن کے سوپ ’رادھاکی بیٹیاں کچھ کردکھائیں گی‘میں سپورٹنگ رول ادا کرکے دادپاچکی ہے لیکن ’اگلے جنم‘کااپناہی ایک رنگ ہے ۔رتن راجپوت نے اس سیریل سے جتنی تیزی سے توجہ اورقبول خاص وعام حاصل کی ہے ‘وہ قابل ِتعریف ہے ۔اس دھان پان اورسبک سی فرخندہ جمال ‘پری تمثال ‘ناہیدخصال اورآئینہ بدن لڑکی کودیکھ کرزندگی ‘توانائی‘تروتازگی اوررنگ وروپ کابھرپوراحساس پیداہوتاہے اورشاعرکایہ خیال رقم کرنے کوجی کرتاہے۔
شریرروحیں

ضمیر ِہستی کی آرزوئیں

چٹکتی کلیاں

کہ جن سے بوڑھی

اداس گلیاں مہک رہی ہیں

سیریل کاموضوع بھی رتن راجپوت کی طرح دل نشین ہے ۔یہ اس ’کچھ سخی اورکچھ بے سروساماں‘خاندان کے عزم وہمت کی داستان ہے جو’’گریزاں روشنی ‘‘کے تعاقب میں ہے ‘جوپائوں توڑکربیٹھنے اورہتھیارڈالنے کاقائل نہیں ‘جن کے ہاں مایوسی کفراورحرکت ہی مقصد ِزندگی ہے سووہ دردوں‘کربوں ظلموںاورمعاشرے کی نوچاکھسوٹی سے بڑی پامردی اوراستقامت کے ساتھ نبردآزماہیں۔’’اگلے جنم ‘‘کے ذریعے ژی نے ناظرین کوبھی بڑے حوصلے دئیے ہیں اورجذبہ وحساس کی نئی دنیائوںسے روشناس کرایاہے ۔یہ انڈین تخلیق کاروں کے فنی خلوص کاکرشمہ اورزندگی کانباہ ہے کہ وہ اتنے سچے ‘اچھوتے اورتنومنداندازمیں ناظرین کے دل ودماغ تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں کہ داددیتے ہی بنتی ہے ۔حفیظ جالندھری کایہ شعر اس سیریل کی ٹیگ لائن کے طورپراستعمال کیاجاسکتاہے ۔
آبروئے حیات کی خاطر۔آرزوئے حیات باقی ہے
آج کاناظررتن راجپوت سے صرف ِنظرنہیں کرسکتا۔اس نے بہت کم وقت میں اپنے فن کالوہامنوالیاہے ۔وہ آنے والے کل کاچہرہ ہے ‘تابندہ اورپاکیزہ۔اس کی اٹھان اس کے روشن مستقبل کی غمازی کرتی ہے ۔وہ جس چوکھٹ کاچراغ ہے وہاںافراط وتفریط کاکھٹکاتوبہرحال نہیں ہوتا‘بہرحال خداکرے ‘اسے ایسے کردارملیں جواس کے ہونٹوں کی طرح اس کی آنکھوں کوبھی مسکراہٹ سے آشناکردیں ۔مجھے یقین ہے کہ میری طرح دیگرناظرین بھی اس دن کے منتظرہیں۔

No comments: