Monday, January 5, 2009

Above Rating RAHMAN



جولوگ روش ِعام سے ہٹ کرچلتے ہیں ،ان کوزمانہ دیرسے پہچانتاہے ۔اے آررحمان ان گنے چنے خوش نصیب لوگوںمیں سے ایک ہیں جوسڑک سے اترکرکسی پگڈنڈی پربھی چل پڑیں تووہاںبھی سڑک بن جاتی ہے اورسڑک بھی کوئی عام سڑک نہیں بلکہ شاہراہ ِخاص ،جس کے نقطہ ء آغازپربورڈلگاہوتاہے ۔یہ شاہراہ ِعام نہیں ہے ۔آج صرف تینتالیس سال کی عمرمیںاے آررحمان کے پاس رفعت ِمقام بھی ہے اورشہرت ِدوام بھی اورسب سے بڑھ کرفن ِموسیقی پروہ حیرت انگیزقادرالکلامی جوانہیں معمول کے موسیقاروںسے ممتازکرتی ہے ۔یہ حیرت ہی شاید۔۔بنیادِفن ہے ۔کوئی بھی دَھن جب رحمان کی انگلیاںچھوکرآشیربادلیتی ہے توشش جہات کے غیرمختتم سفرپرنکل پڑتی ہے ۔اس سفرمیں خوشبوکے جزیرے بھی آتے ہیں اورستاروںکی حدیں بھی ۔خلائوںسے پارکی دنیائوںکے اس سفرمیںکبھی وہ آفاق کی وسعتوںسے جھانکتی دکھائی دیتی ہے توکبھی نہاںخانہ ء دل سے ابھرتی محسوس ہوتی ہے۔ اپنے اچھوتے اندازمیں ان گنت سامعین کے دل ودماغ کوچھونے اورنوع انسانی کو خوشحالی اورروحانی سکون دینے والی لاجواب موسیقی دینے والے اے آررحمان کوآج ان کے جنم دن پرڈھیروں ڈھیرمبارک باد!

اس کی آواززندگی جیسی

زندگی اس کی موسقی جیسی

رات کی بے چراغ بستی میں

اس کی ہردھن ہے چاندنی جیسی

میں آج تک یہ طے نہیں کرسکاکہ اے آررحمان نے جذبوںکوموسیقی دی ہے یاموسیقی کو جذبے عطاکئے ہیں ۔خیرجوبھی ہو،اے آررحمان سے میری شناسائی بہت پرانی نہ سہی ،نئی بھی نہیں ہے ۔فلم ہندوستانی کا ٹریک ’’ٹیلی فون دھن میں ہنسنے والی‘‘عالم ِہوش میں وہ پہلاگانارہاہوگاجومیں بے اختیارگنگنانے پرمجبورہوگیا۔میںتب چودہ برس کاتھا۔اب یہ یادنہیں کہ وہ ٹریک میرے دوست اعظم گوندل نے پہلے سناتھایامیں نے بہرحال جس نے سنامسمرائزہوگیااوردوسرے کوسنایااورپھرہائی سیکنڈری پاس کرنے تک ہم دونوں ڈیسک بجاکے یہ گاناگایاکرتے تھے ۔برسوںبعداعظم نے ایک روزکارڈیک پراچانک یہ ٹریک پلے کیااورڈرامائی سے اندازمیں میری طرف دیکھ کرکہا’’شاہ جی ۔یادآیا‘‘میںجواب نہیں دے سکا۔وہاںہوتاتوکوئی جواب دیتا۔میں توہائی سکول کے جوہرسیکشن میں پہنچ گیاتھا۔ہم کافی دیر گاڑی کی سیٹوںکے بجائے ہم دونوںجوہرسیکشن کے انہی مٹے مٹے سے کالے یانیلے بنچوں پربیٹھے رہے ۔

بات بھی کہاںچلی گئی ۔خیرٹیلی فون کی دھن میں کے بعد’’دوڑ‘‘آئی ۔’’اوبھنورے ‘‘زبان پررہا۔بمبئی فلم کے ٹریک دل میںاترے ۔رحمان نے توخیراس دوران میں بھی کافی کام کیالیکن میری رحمان سے اگلی ملاقات دل سے کے دل نشین ٹریک ’’اے اجنبی ‘‘کے ذریعے ہوئی ۔پھر’’پیاحاجی علیؒ‘‘کے توسط سے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ تب تک مجھے اے آررحمان سے تعارف حاصل نہیں تھا۔ فلم پکارکاٹریک ’’کے سراسرا‘‘دل کوبڑابھایا۔قصہ مختصررحمان کی جودھن کان میں پڑتی رہی رس گھولتی ہے ۔دل میں جگہ بناتی رہی ۔پھریوں ہوا کہ میں نے فلم تال دیکھی ۔ چھوٹے بھائی نے ڈی وی ڈی خریدی تھی جومیں نے ’’اڑا‘‘لی ۔فلم تال کامیوزک مجھے اے آررحمان سے قریب کرگیا۔ یہ پوراالبم سرسنگیت کی لطافت اورترنم کے معاملے میں ایسا منفردالبم تھا جس کے حسن نے مجھے ایسااسیرکہ میںرحمان کاباقاعدہ سامع ہوگیا۔اورسامع بھی ایسانہیں کہ جہاںسننے کوملاسن لیابلکہ ۔۔۔وہ سناجومیوزک لورزکوشایدپتہ بھی نہیں ہوگا۔میں رحمان کے تامل میوزک کی بات کررہاہوں۔میں نے ٹوٹلی اے آررحمان کے نام سے اے آررحمان کی کولیکشن اکٹھاکرناشروع کی توصرف ہندی فلمی موسیقی تک محدودنہیں رہابلکہ رحمان کی فلموگرافی کی ترتیب سے ہندی اورتامل مکس کولیکشن جمع کرناشروع کردی اورتادم ِتحریراے آررحمان کی دریافت کایہ سفرابھی جاری ہے ۔ ’’روجا‘‘سے ’’گجنی‘‘تک قریب دودہائیوںمیں رحمان نے تخلیقی لحاظ سے نہایت بھرپوروقت گزاراہے ۔اس نے خوداپنے ذہن کے ساتھ ساتھ فن ِموسیقی کے ساتھ مستقبل گیرتجربے کئے ہیں۔دھنوںکو نئی ہئیت عطاکرنے کے ساتھ اس نے اس میں صوفیت کی پاکیزگی میں فطرت پسندی کی توانائی اس خوبی سے حل کردی ہے کہ دل سے بے ساختہ دادنکلتی ہے اوروہ دادصرف دادنہیں ہوتی ۔اس میں دعائوںکی بھرپورروحانیت بھی شامل ہوجاتی ہے ۔ایسالگتاہے کہ رحمان کے گیتوںمیں کوئی نظریہ ہے جو انڈرکرنٹ کی طرح دوڑرہاہے ۔چونکئے نہیں۔نظریہ رکھناکوئی غیرفنی بات نہیں بلکہ عین فن کی بنیادہے ۔میراکہناہے کہ رحمان عارضی جذبوںکاموسیقارنہیں ہے ۔اس کے گیتوںمیں حسن ہے ،نرمی ہے ،نزاکت ہے ،مسکراہٹیں،آنسو،امنگیںغرض زندگی سے لبریزاحساسات ہیں ۔رحمان کے سنگیت میں اس کاتاریخی شعورزندگی کوارتقائی رخ سے دیکھتانظرآتاہے ۔یہ حسین ،سچے اورصحت منداحساسات ہی ہیں جواس کے گیتوںمیں بعض اوقات سرگوشی کاتاثرپیداکردیتے ہیں ۔اورپھروہ سرگوشی گونج بن کرشش جہات میںپھیل جاتی ہے ۔یقین نہ آئے تو’’روجاکاٹائٹل ٹریک سنئے اورپھر’’گجنی‘‘کاٹریک ’’کیسے مجھے تم مل گئیں‘‘سنئے ۔آپ کوخودجواب مل جائے گا

اے آررحمان نے آج کے مشینی دورکے شوروشغب میں جودھنیں مرتب کی ہیں ان میں اس کے بھرپوراعتمادکی جھلک ہے ۔رحمان کی شخصیت اورموسیقی کے کئی محبوب پہلوہیں جن میں سے دوایک کاذکربے جانہ ہوگاایک تویہ کہ اس نے فن کے نئے تقاضوںکی تکمیل اور توسیع کے ساتھ برصغیرکی قدیم موسیقی کی روایات کے احترام کوبھی ملحوظ ِخاطررکھاہے ۔فن ِموسیقی کے بڑے بڑے جغادری بھی مانتے ہیں کہ نصرت فتح علی خان کے بعداے آررحمان کوموسیقی کی تاریخی روایات پربڑاعبورحاصل ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جن رمزوںاورکیفیتوںسے ہماری کلاسیکی موسیقی کی تاریخ بھری پڑی ہے ،رحمان کے ہاںذرازیادہ بھرپورمعنویت کے ساتھ ملتی ہیں۔رحمان کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس نے تامل میوزک سے شروعات کی لیکن عالمی سطح پرپے درپے کامیابیوںکے بعدبھی اس نے اپنی مٹی سے ناتاکبھی نہیں توڑا۔اس کی البمزپرکبھی ممبئی پن کی چھاپ نہیں پڑسکی ۔اس نے خودکوافراط وتفریط سے بچایاہے لیکن اپنے خلوص کوبے لوث رکھاہے ۔آج بھی وہ اپنی بھرپورعاجزی اورتوانائی کے ساتھ تامل فلم انڈسٹری کوبھی اپنی خدمات پیش کرتاہے اوریہی ایک بڑے اورسچے فنکارکی پہچان ہے کہ کامیابی اسے تکبرمیںمبتلانہیں کرتی ۔ خوداس کی شخصیت میں ایسی معصومیت اورسادگی ہے کہ یقین کرنامشکل ہوجاتاہے کہ یہی وہ شخص ہے جس نے اپنے توانا،جانداراور لاجواب فن سے ایک زمانے کادل جیت لیاہے ۔رحمان کے سنگیت کاکثیرسرمایہ فلمی موسیقی پرمشتمل ہے لیکن وہ صرف فلمی موسیقار نہیں ہے ۔اس کے پرائیویٹ البم اس بات کاثبوت ہیں کہ وہ اپنی ذات میں آفاقیت اورتاریخیت کاعکاس ہے ۔یہ البم رحمان کی آپ بیتی ہیں ۔جوسرگوشیاںاس کے گیتوںمیں سنائی دیتی ہیں یہاںکھل کرسامنے آتی ہیں۔وندے ماترم ہویاحال یہی میں ریلیزہونے والاالبم کنکشنزہو۔اس کاہرالبم لاطبقاتی سوچ کی لاطبقاتی موسیقی سے عالمی سطح پرہونے والے انسانی مسائل کواجاگرکرتاسنائی دیتاہے ۔یقین نہ ہوتووندے ماترم سے ’’گروزآف پیس ‘‘(نصرت فتح علی خان،اے آررحمان )سن لیجئے ،توبہ توبہ سنئے یا’’کنکشنز‘‘سے جیاسے جیا‘‘آپ کوہرٹریک میں اس آفاقیت کی پرچھائیاںملیں گی ۔رحمان کے اردگردکی دنیامیں جوہورہاہے ،وہ اس کوخوبصورت تردیکھناچاہتاہے ۔ایسامیں نہیں کہتابلکہ رحمان کی پرائیویٹ البمزکہتی ہیں۔ رحمان کی ہرتان اندھیروںکے تسلط میں یقین واعتمادکاننھاسادیاثابت ہوتی ہے اورآپ کوتسلیم کرناپڑتاہے کہ رحمان انسانیت وموسیقیت کاایسادل کشاسنگم ہے جس کاکوئی بدل نہیںہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رحمان کانام کئی عالمی آرگنائزیشنوںکے ساتھ جڑاہے جوانسانی فلاح وبہبودکے لئے کام کررہی ہیں۔ رحمان کے معاملے میں بلاجھجک یہ کہاجاسکتاہے کہ ان کے گانے فلموںکے لئے کمپوزتوضرورکئے گئے ہیںلیکن صرف فلمی نہیں رہے۔پتھرکے شہربمبئی کی فلمی دنیامیں جہاںاچھے اچھے فنکارپیسے کی چکاچوندمیں کھوجاتے ہیںوہاںکم ہی نام ایسے ذہن میں آتے ہیں جنہوںنے اپنے فن سے سمجھوتا نہیں کیا۔اس اعتبارسے رحمان کانام ایک ممتازاورمنفردنام ہے ۔یہ حقیقت اپنی جگہ کہ فلم کاموسیقاربھی مجبورہوتاہے کہ سچویشن کے مطابق سنگیت دے لیکن ایک سچ یہ بھی ہے کہ یہی ایک موسیقارکی انفرادیت کوسب سے بڑاچیلنج بھی ہے ۔ اگرچہ رحمان بذات ِخووشاعرنہیں لیکن اس کے سنگیت میں حددرجہ شعریت اورمعنویت ہے ۔اس پراسکی خوش نصیبی یہ کہ اسے ہندوستان کے صف ِاول کے شعرامیسرآئے جن میںگلزار صاحب،جاویداختر،مجروح سلطان پوری ،آنندبخشی کے نام آتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ رحمان کافلمی ٹریک ریکارڈعمدہ موسیقی کے ساتھ ساتھ ادبی حیثیت کاحامل بھی قرارپاتاہے اورسنگیت کامزہ بھی دوبالاہوجاتاہے ۔ا س طرح کرداراور منظرکے وہ پہلوروشن ہوجاتے ہیں جورائٹراورڈائریکٹرابھارنے میں ناکام رہتے ہیں۔رحمان کاسنگیت جتنی فلموںکے ساتھ آتاہے وہ کہانی ،کرداروںاورمنظروںکاایک اہم حصہ ہے اورکے ان گنت گیتوںپررحمان کی انمٹ چھاپ ہے ۔میں توکہوںگاکہ رحمان نے انتہائی چابک دستی اورذمہ داری سے موسیقی کووظیفہ ء حیات میں تبدیل کردیاہے۔ اس نے صوفیانہ اورکمرشل میوزک کواس خوبصورتی سے اکٹھاکیاہے کہ دونوںزاویوںسے لطف دیتاہے ۔چھیاںچھیاںہو،ست رنگی ہو،تیرے بنا،کرئیے ناں،عشق بناہوں یاخالصتاقوالی جیسے پیاحاجی علیؒ،خواجہؒ میرے خواجہ یاؒ ذکر(نیتاجی سبھاس چندربوس)ان کودنیاداری کی نظرسے سنیئے یاصوفیانہ زاوئیے سے ،ان کی لذت کم نہیں ہوگی ۔یہ توچندمثالیں ہیں ورنہ رحمان کے سرمایہ ء تخلیق میں ایسے اوربہت جواہرپارے ہیں جن کی چمک دمک مدتوںتک ماندنہیں پڑے گی ۔(رحمان کے فن کی خصوصیات گننے اوراس کی مثالیں دینے کے لئے ایک پوسٹ بہت کم ہے۔یہ کام آئندہ پرچھوڑتے ہیں)
شاعری ہویاموسیقی ،ان کاپیغام سرحدیں نہیں روک سکتیں ۔ٍٍٍرحمان کاسنگیت اس کے دل سے نکلتاہے اوران گنت انسانوںکے زخموںسے چھلنی حساس سینوںمیں دھڑکتے دلوںمیں اترجاتاہے ۔ختم ِسخن پرمیری دعاہے کہ رحمان پھلے ،پھولے ،پروان چڑھے اوروہ گاتے مسکراتے ہوئے یونہی دلوںمیں اترتارہے ۔
انوارزندہ صحبت باقی

No comments: